فوری الیکشن کروانے پہ مجھے کوئی اعتراض نہیں؛ نوازشریف

فوری الیکشن کروانے پہ مجھے کوئی اعتراض نہیں؛ نوازشریف
مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے اراکین پنجاب اسمبلی نے نواز شریف اور مریم نواز کے ساتھ اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے شکایت کی ہے کہ وفاقی وزرا نے ہمیں اندھیرے میں رکھا۔ اراکین پنجاب اسمبلی نے لیڈرشپ سے مطالبہ کیا کہ اب فوری الیکشن کی طرف جانا چاہئیے۔ نواز شریف نے جواب دیا کہ اگر پی ڈی ایم راضی ہے تو مجھے فوری الیکشن کروانے پہ کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اطلاعات کے مطابق نواز شریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحٰمن کے مابین ٹیلی فونک رابطے میں مشاورت کی گئی ہے۔ یہ کہنا ہے رپورٹر شہباز میاں کا۔

نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے شہباز میاں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) اور پی ڈی ایم کو عمران خان کی طرف سے تین سرپرائز ملے ہیں، پنجاب اسمبلی میں 186 ووٹ پورے ہو گئے، (ن) لیگ نے دعوؤں کے باوجود ہائیکورٹ میں قانونی راستہ نہیں اپنایا، ان کے وکیل نے عدالت میں اعتماد کے ووٹ کو تسلیم کر لیا۔ (ن) لیگ کے رہنماؤں کے مطابق پرویز الہٰی نے ناراض اراکین اسمبلی کو حلف دیا تھا کہ وہ اسمبلی نہیں توڑیں گے مگر انہوں نے اسمبلی توڑ دی۔ ملک میں آٹے کے لیے جنگی صورت حال چل رہی ہے، اگرنتیجہ یہی نکلنا تھا تو قوم کا وقت برباد کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ (ن) لیگ کے رہنماؤں کی اتنی بڑھکیں مارنے کا کیا نتیجہ نکلا؟

انہوں نے کہا کہ (ن) لیگ کے اراکین اسمبلی کا اعتراض درست ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو ریموٹ کنٹرول کے ذریعے سے نہیں چلایا جا سکتا۔ مریم نواز پارٹی کی سینئر نائب صدر ہیں اور وہ بھی ملک میں نہیں ہیں۔ (ن) لیگ اس وقت ایک پارٹی کی بجائے شریف خاندان کی پرائیویٹ کمپنی بن چکی ہے۔ (ن) لیگ کی طرف سے پنجاب اسمبلی کے اراکین کو توڑنے کی کوشش ہوئی ہے۔ آئندہ الیکشن میں (ن) لیگ کی طرف سے ٹکٹ کی آفر بھی کی گئی ہیں مگر یہ کوششیں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ اطلاعات کے مطابق اب صدرعارف علوی وزیراعظم شہباز شریف کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نوازشریف ابھی پاکستان واپس نہیں آنا چاہتے۔ اگر عام انتخابات نہیں ہوتے تو نواز شریف نہیں آئیں گے۔ اگر وہ اپنے بھائی اور بھتیجے کی حکومت میں نہیں آئے تو اب بھی ان کی واپسی مشکل لگ رہی ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نوازشریف الیکشن کے وقت بھی نہ آ سکیں مگر ان کی جگہ پر مریم نواز کو پاکستان آ کر نوازشریف کی عدم موجودگی کا خلا پورا کرنا ہو گا۔

اینکر پرسن نادیہ نقی نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے ہاتھوں سے گیم ایک دفعہ پھر نکلتی نظر آ رہی ہے۔ ان کے سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ عدم اعتماد کے بعد (ن) لیگ بڑے دعوؤں کے ساتھ حکومت میں آئی تھی۔ (ن) لیگ عدالت میں بھی ناکام ہوئی ہے، اس ناکامی کی وجہ ان کی لیڈرشپ کا پاکستان میں موجود نہ ہونا ہے۔ اعتماد کے ووٹ کے وقت اپوزیشن لیڈر کو اسمبلی میں موجود ہونا چاہئیے تھا۔ موجودہ حالات میں پرویز الہیٰ سب سے کامیاب رہے ہیں، لگ رہا ہے کہ پرویز الہیٰ نے اپنے سیاسی مسقتبل کے لئے بھی کوئی انتظام کر لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ (ن) لیگ کی کوئی واضح حکمت عملی نظر نہیں آرہی، مؤثرحکمت عملی کے لیے (ن) لیگ کی لیڈرشپ کو پاکستان واپس آنا ہو گا۔ مسلم لیگ (ن) کی لیڈرشپ الطاف حسین کی طرح لندن میں بیٹھ کر پارٹی کے امور نہیں چلا سکتی۔

ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کے انضمام کی بات پہلے سے چل رہی تھی، جب سے نئے گورنر آئے ہیں اس پر کام ہو رہا ہے۔ مصطفیٰ کمال اس پر راضی نہیں تھے مگر ان کو شامل ہونا پڑا۔ سب کو پتہ ہے کہ ایم کیو ایم کس کے اشارے پر چلتی ہے۔ کراچی میں ایک بار پھر ایم کیو ایم کو استعمال کرنے کی تیاری ہورہی ہے۔ جس طرح تحریک انصاف کو فائدہ پہنچانے کے لیے ایم کیو ایم کو توڑا گیا تھا اب ایم کیو ایم کو ایک اور مقصد کے لیے اکٹھا کیا جا رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق بلدیاتی الیکشن کو مؤخر کرنے کے لیے سکیورٹی کو مسئلہ بنایا جا سکتا ہے۔

ایم کیو ایم میں ایک واضح بات نظر آئی ہے کہ اب الطاف حسین کی ایم کیو ایم میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ایم کیو ایم نے واضح کہا ہے کہ وہ 15 جنوری کو بلدیاتی الیکشن نہیں ہونے دیں گے۔ اس وقت ایم کیو ایم کی وجہ سے معاملات (ن) لیگ کے لیے زیادہ مشکل ہیں کیونکہ انہوں نے قومی اسمبلی سےاعتماد کا ووٹ لینا ہے۔ بلاول بھٹو الیکشن کے حق میں ہیں مگر زرداری صاحب الیکشن کے حق میں نہیں ہیں۔

پروگرام کے میزبان مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ اگر شہباز شریف کے 172 نمبر پورے نہ ہوئے تو صدر ان کو نئے وزیراعظم کے منتخب ہونے تک کام کرنے کی اجازت دے دیں گے۔ شہباز شریف کو اس وقت تک کوئی خطرہ نہیں ہے جب تک پی ٹی آئی پارلیمنٹ میں واپس نہیں آتی۔

پروگرام کے میزبان مرتضی سولنگی تھے۔ 'خبر سے آگے' ہر پیر سے ہفتے کی رات 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے براہ راست پیش کیا جاتا ہے۔