'قانونی وجوہات کی بنا پر نگران حکومتیں اکتوبر تک کام کرتی رہیں گی'

'قانونی وجوہات کی بنا پر نگران حکومتیں اکتوبر تک کام کرتی رہیں گی'
پرویز الہیٰ کی جیت کی وجہ پنجاب میں اپوزیشن اور (ن) لیگ کی ناکامی ہے، اس میں اسٹیبلشمنٹ کو مورد الزام ٹھہرانا مناسب نہیں ہے۔ اگر (ن) لیگ نے اسٹیبلشمنٹ پر انحصار کیا ہوا تھا تو یہ وفاق کی سیاسی پارٹی نہیں ہے۔ پنجاب اسمبلی کا کمانڈر کافی عرصے سے غائب ہے۔ سلیمان شہباز واپس آ سکتے ہیں تو حمزہ کیوں نہیں آئے۔ اگرانہوں نے جانا تھا تو پھر استعفیٰ دے کر کسی اور کو اپوزیشن لیڈر بنا کر جاتے۔ (ن) لیگی قیادت نے اپنے حصے کا کام نہیں کیا۔ یہ کہنا ہے تجزیہ نگار مرتضیٰ سولنگی کا۔

نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دونوں اسمبلیاں تحلیل ہو جائیں گی، آئینی اور قانونی وجوہات کی بنیاد پر نگران حکومتیں اکتوبر تک جا سکتی ہیں اور مردم شماری بھی اکتوبر تک مکمل نہیں ہو سکتی۔ 2017 کی مردم شماری پر آئینی طور پر الیکشن نہیں ہو سکتے، یہ مشترکہ مفادات میں عمران خان کی سربراہی میں طے ہوا تھا۔ ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو تحریک انصاف کی حکومت ایک معاہدے کے تحت واپس لے کر آئی ہے۔ کے پی کے صوبائی حکومت نے نہتی پولیس کو دہشت گردوں کے حوالے کر دیا ہے۔

کالم نگار مزمل سہروردی نے کہا کہ گورنر دستخط کریں یا نہ کریں، پنجاب اسمبلی تحلیل ہو جائے گی۔ آئین کے تحت گورنر اسمبلی کی تحلیل کو نہیں روک سکتے۔ نگران سیٹ اپ کے لیے تین نام پرویز الہیٰ کی طرف سے اور تین نام حمزہ شہباز کی طرف سے آئیں گے، ان 6 ناموں پہ اتفاق نہ ہوا تو پھر یہ 6 نام الیکشن کمیشن میں چلے جایئں گے۔ الیکشن کمیشن فیصلہ کرے گا کہ کون نگران وزیر اعلیٰ ہو گا۔ ایم کیو ایم شہباز شریف کو اعتماد کا ووٹ نہ بھی دے تو شہباز شریف محفوظ ہیں۔ ایم کیو ایم کے 6 اراکین نکال کے بھی 170 ہیں۔ عدالتوں میں بیٹھے جج پر منحصر ہو گا کہ وہ آئین کی کیسے تشریح کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت جانے کے بعد بھی عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے مکمل سہولت کاری حاصل رہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی 29 نومبر سے پہلے کی پالیسی اور تھی اب اور ہے۔ نئے آرمی چیف کی اپنی پالیسی ہے جو باجوہ صاحب کی پالیسی سے یکسر مختلف ہے۔ عمران خان نے وفاقی حکومت کی خواہش میں اپنی دو وکٹیں گرا دی ہیں۔ اب ان کے پاس پاکستان میں کوئی حکومت نہیں ہے۔ سسٹم سے صرف عمران خان آؤٹ ہوئے ہیں۔ اگر حمزہ شہباز شریف پاکستان میں موجود بھی ہوتے تو پنجاب اسمبلی میں اعتماد کے ووٹ میں یہی صورت حال ہوتی۔

رفعت اللہ اورکزئی نے کہا کہ اگلے ہفتے کے آخر تک خیبر پختونخوا اسمبلی تحلیل ہو سکتی ہے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا ہے کہ وہ عمران خان کے اشارے کے منتظر ہیں اور وہ پنجاب اسمبلی تحلیل ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ کے پی کے میں پی ٹی آئی کو اکثریت حاصل ہے، اپوزیشن کے لیے اسمبلی کی تحلیل کو روکنا ممکن نہیں ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی کے حملے عمران خان کے دور حکومت میں ہی شروع ہو گئے تھے مگر ان میں شدت بعد میں آئی۔ کے پی کے کی صوبائی حکومت نے مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ کل پشاور کے ایک علاقے میں پولیس والے شہید ہوئے ہیں۔ عمران خان کے حالیہ بیان کی وجہ سے پولیس اور عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ عمران خان پہلے کے پی کے پولیس کو مثالی پولیس کہتے تھے، اب وہ اس طرح کے بیانات سے پولیس کا مورال کم کر رہے ہیں۔

پروگرام کے میزبان رضا رومی نے کہا کہ (ن) لیگ نے پنجاب کو پلیٹ میں رکھ کرعمران خان کو دے دیا ہے، حمزہ شہباز کو ہر حال میں عدم اعتماد کے ووٹ کے وقت پنجاب میں موجود ہونا چاہئیے تھا۔ موجودہ حالات میں سیاسی میدان کا گھوڑا صرف عمران خان لگ رہا ہے۔

پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ ‘خبر سے آگے’ ہر پیر سے ہفتے کی رات 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے براہ راست پیش کیا جاتا ہے۔