'ن لیگی رہنما تذبذب میں ہیں کہ نواز شریف کا بیانیہ اپنائیں یا شہباز شریف کا'

'ن لیگی رہنما تذبذب میں ہیں کہ نواز شریف کا بیانیہ اپنائیں یا شہباز شریف کا'
نواز شریف اس وقت نقصان کو کم کرنے کی حکمت عملی پر غور کر رہے ہیں، مگر یہ کام پاکستان آ کر کرنے والا ہے، باہر بیٹھ کر یہ کام نہیں ہو سکتا۔ مسلم لیگ ن کے اندر تنظیم سازی کا فقدان ہے۔ ن لیگ کو وفاقی حکومت میں آنے کا ایک نقصان یہ ہوا ہے کہ ان کی پارٹی کے لوگ عہدے مانگ رہے ہیں حالانکہ یہ حکومت ن لیگ کی نہیں بلکہ پی ڈی ایم کی ہے۔ ایک ہی گھر میں سارے عہدے اور پارٹی کی ٹکٹیں بانٹی جاتی ہیں۔ شہباز شریف کا بیانیہ ابھی تک باجوہ صاحب کے ساتھ ہے۔ مریم نواز نے اب نیا بیانیہ رکھنا ہے، ن لیگ کو دیکھنا ہو گا کہ باجوہ کا بیانیے چلے گا یا نواز شریف کا، دونوں بیانیوں کو ساتھ رکھ کر چلنا صرف انتشار پیدا کرے گا۔ یہ کہنا ہے انیق ناجی کا۔

نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے شفیق بھائی کا فرض نبھاتے ہوئے باجوہ صاحب اور فیض حمید کا دانستہ نام نہیں لیا کیونکہ وہ شہباز شریف کے لیے مشکلات پیدا نہیں کرنا چاہتے تھے۔ (ن) لیگ کے رہنما تذبذب کا شکار ہیں کہ وہ نواز شریف کا بیانیہ مانیں یا شہباز شریف کا۔ ن لیگ کے لوگ ٹکٹ شریف خاندان سے لیتے ہیں اوراسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی رابطے میں رہتے ہیں۔ ن لیگ کو اس وقت بہت سارے چیلنجز کا سامنا ہے۔ موجودہ حکومت اگر اختیارات رکھتی ہے تو فیض حمید اور ثاقب نثار کا نام ای سی ایل میں کیوں نہیں ڈالتی۔ نواز شریف نے بڑے صبر سے 8 ماہ بیٹھ کر فصل کو اجڑتے دیکھا ہے، انہوں نے بھائی کے ساتھ جتنا تعلق بنھانا تھا وہ نبھا چکے ہیں۔ ن لیگ کو اب خاندانی سیاست سے باہر نکلنا ہو گا۔

اینکر پرسن تنزیلہ مظہر نے کہا کہ ن لیگ کو عمران خان کے الزامات کا جواب دینا چاہئیے۔ اب ن لیگ کے اندر سے بھی ایسی آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں، اس کا کریڈٹ بھی لوگ عمران خان کو دیں گے۔ اگر موجودہ حکومت عدم اعتماد کے لیے اتنی پر اعتماد تھی تو پھر بیانیے کی تیاری کیوں نہیں کی گئی تھی۔ ڈار صاحب نے مفتاح اسماعیل کے خلاف پروگرام کروائے اور پھر اس کے جواب میں مفتاح کو بھی بولنا پڑا۔ ن لیگ کو اس بات کا یقین نہیں ہے کہ انہوں نے خود فیصلے کرنے ہیں، وہ اسٹیبلشمنٹ سے ہر فیصلے کی یقین دہانی مانگ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ن لیگ سیاسی فیصلے لینے میں تاخیر کر رہی ہے، مریم نواز بھی آ کر کون سا بیانیہ اپنائیں گی، سارے بیانیے تو عمران خان نے پرانے کر دیے ہیں۔ ن لیگ اس وقت شدید پھنس گئی ہے، مشکل لگتا ہے کہ مریم نواز اور نواز شریف مل کر بھی ن لیگ کو اس دلدل سے نکال پائیں گے۔ عمران خان کو پتہ ہی نہیں ہے کہ نظام کیا ہوتا ہے اور کیسے چلتا ہے، مگر جن کو علم ہے وہ کیا کر رہے ہیں۔ ن لیگ کے پاس کوئی حکمت عملی نہیں ہے، ان کو معاشی اتفاق پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئیے تھی، ن لیگ کے اندر عمل کی کمی ہے۔

مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ مریم نواز کی ملک واپسی کے بعد دیکھنا ہو گا کہ وہ کیا حکمت عملی اپناتی ہیں اور وہ شہباز شریف کے ساتھ کیسے معاملات طے کرتی ہیں۔ مہنگائی پہلے ہی 25 فیصد پر پہنچ چکی ہے، حکومت ابھی تک آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے نہیں کر سکی۔ عمران خان نے موجودہ معاشی عدم استحکام سے خود کو بالکل الگ کر لیا ہے جیسے ان کا اس میں کوئی کردار ہی نہیں ہے۔ موجودہ مخلوط حکومت اور خاص طور پر ن لیگ باجوہ، فیض حمید اور ثاقب نثار کو ملامت کر کے ووٹ نہیں لے سکے گی۔ حکومت کو پچھلے 7 سے 8 ماہ کا جواب دینا پڑے گا، یہ جواب دیے بغیر لوگ آپ کا ساتھ نہیں دیں گے۔ اگر عوام کو مطمئن نہ کیا گیا تو پھر وہ مجبوراً عمران خان کے جھوٹ کا ساتھ دیں گے۔

پروگرام کے میزبان رضا رومی نے کہا کہ عمران خان اس وقت بہت مقبول ہیں۔ ان کی موجودہ مقبولیت ماضی کی نسبت زیادہ ہے، اس میں ان کے سوشل میڈیا کا کردار بہت اہم رہا ہے۔ ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد ان کے ساتھ ہیں۔ اس میں عمران خان کے پروپیگنڈے کے ساتھ مہنگائی کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔ اس پروپیگنڈے کا توڑ بھی سیاسی عمل سے ہی ہو سکتا ہے مگر حکومت کے پاس کچھ بیچنے کے لیے ہونا چاہئیے۔ فوج کے اندر بھی عمران خان کی حمایت موجود ہے، عمران خان کو کھلی آزادی اس لیے ملی ہوئی تھی کہ فوج کو ادارے کے اندر سے بھی دباؤ کا سامنا تھا۔

پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ ‘خبر سے آگے’ ہر پیر سے ہفتے کی رات 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے براہ راست پیش کیا جاتا ہے۔