نقیب اللہ قتل کیس میں راؤ انوار سمیت تمام ملزمان بری

نقیب اللہ قتل کیس میں راؤ انوار سمیت تمام ملزمان بری
کراچی میں انسداد دہشت گردی عدالت نے نقیب اللہ محسود قتل کیس میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سمیت تمام ملزمان کو بری کر دیا۔

خصوصی عدالت نے نقیب اللہ قتل کیس کا پورے 5 سال بعد فیصلہ سنادیا۔ یہ کیس 23 جنوری 2018 کو درج کیا گیا تھا۔ انسداد دہشتگردی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ پراسکیوشن ملزمان کے خلاف الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے۔

عدالت نے راؤ انوار سمیت تمام ملزمان کو بری کر دیا۔ بری ہونے والے دیگر ملزمان میں ڈی ایس پی قمراحمد، امان اللہ مروت اور دیگر شامل ہیں۔

مقدمے کے چالان میں 90 سے زائد گواہوں کو شامل کیا گیا اور 51 گواہوں کے بیانات قلمبند کیے گئے۔ جبکہ پراسیکیوشن کے 7 گواہ پولیس کو دیئے گئے بیانات سے منحرف ہوگئے تھے۔ حتمی دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے 14 جنوری کو کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

دوسری جانب نقیب اللہ محسود قتل کیس میں بری ہونے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے راؤ انوار کا کہنا تھا آج ایک جھوٹے کیس کا انجام ہو گیا۔

راؤ انوار کا کہنا تھا پولیس مقابلے میں جس کو گولی لگی وہ ایک اشتہاری ملزم تھا، مقتول کا نام نسیم اللہ تھا لیکن اس کی غلط فوٹو میڈیا پر چلوائی گئی۔

ان کا کہنا تھا اس جھوٹے کیس میں 25 لوگوں کو نامزد کیا گیا۔ میرے ساتھ اور کراچی شہر کے ساتھ بہت زیادتی ہوئی، لیکن آج اللہ نے اور جج نے میرے ساتھ انصاف کیا۔ میں نے کراچی کی بہت خدمت کی، بہت سارے ظالموں سے اس شہر کو نجات دلائی ہے۔ جب تک جان میں جان ہے اپنا کام جاری رکھوں گا۔

واضح رہے کہ نقیب اللہ محسود اور دیگرکو 13 جنوری 2018 کو مبینہ جعلی مقابلے میں قتل کیا گیا تھا۔ پولیس نے مارے جانے والے چاروں افراد کا تعلق کالعدم تحریک طالبان سے بتایا تھا۔

نقیب اللہ محسود کے اہل خانہ نے پولیس کے مؤقف کو مسترد کر دیا تھا اور واقعے کا سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا تھا۔

متعلقہ کیس میں سابق ایس ایس پی راؤ انوار سمیت 18 ملزمان پر 25 مارچ 2018 کو فرد جرم عائد کی گئی تھی۔

گزشتہ سال نومبر میں راؤ انوار نے اپنا بیان ریکارڈ کرایا تھا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ انہیں محکمہ جاتی چپقلش کی وجہ سے اس مقدمے میں پھنسایا گیا تھا لیکن وہ محکمہ پولیس کے ایسے کسی افسر کا نام نہ بتا سکے۔

مقدمے کے چالان میں 90 سے زائد گواہوں کو شامل کیا گیا اور انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 51 گواہوں کے بیانات قلمبند کیے جن میں میڈیکو لیگل، فرانزک اور بیلسٹکس کے ماہرین، 9 خفیہ گواہ اور پولیس اہلکار شامل تھے۔ جبکہ پراسیکیوشن کے 7 گواہ پولیس کو دیئے گئے بیانات سے منحرف ہوگئے تھے۔