'مشرف، کیانی، راحیل شریف اور قمر باجوہ نیک نیتی سے کام کرتے تو دہشت گردی نہ ہوتی'

'مشرف، کیانی، راحیل شریف اور قمر باجوہ نیک نیتی سے کام کرتے تو دہشت گردی نہ ہوتی'
اگر پرویز مشرف، اشفاق کیانی، راحیل شریف اور قمر باجوہ نے نیک نیتی سے اور ٹھیک کام کیا ہوتا تو اے پی ایس پر حملہ نہ ہوتا اور یہ دہشت گردی بھی نہ ہوتی۔ جس طرح کے کام ان لوگوں نے کیے ہیں، ان لوگوں کو نیند کس طرح آتی ہے۔ عوام موجودہ آرمی چیف سے التجا نہ کریں تو کس سے کریں۔ خیبر پختونخوا کے عوام کی آرمی چیف سے صدا ہے کہ دہشت گردی کے بارے میں ایک واضح مؤقف اپنانا چاہئیے، لوگ ریاست کی بار بار بدلتی پالیسی سے اکتا چکے ہیں۔ یہ کہنا ہے بیرسٹر اویس بابر کا۔

نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے اویس بابر نے کہا کہ ضمانت عدالت کی صوابدید ہے، ضمانت ملنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ کیس ختم ہو گیا ہے۔ ابھی ان کے خلاف چالان جمع ہو گا اور گواہ بھی پیش ہوں گے اور پھر عدالت فیصلہ دے گی۔ فواد چودھری کو ضمانت ملنا ایک عام عدالتی معاملہ ہے۔ ٹیریان کیس میں عمران خان کے وکیلوں نے سمارٹ چال لی ہے اس لیے لگ رہا ہے کہ عدالت اس معاملے میں دخل اندازی نہیں کرے گی۔ اگر عمران خان دوبارہ الیکشن کے کاغذات جمع کروائیں اور پھر وہ ٹیریان کا ذکر نہ کریں تو پھر الیکشن کمیشن کے ذریعے سے ان کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔

سینیئر صحافی صالح ظافر نے کہا کہ فواد چودھری نے جیل سے رہا ہونے کے بعد جو گفتگو کی ہے، ان کی زبان اور لہجے میں پہلے جیسی شرارت نہیں تھی۔ شاہد خاقان عباسی کافی عرصے سے پارٹی سے مطمئن نہیں تھے۔ نواز شریف نے مریم کو نئے عہدے دینے سے پہلے پارٹی کے سینیئر رہنماؤں سے مشورہ کیا تھا۔ شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ انہوں نے پارٹی کے عہدے سے اس وقت استعفیٰ دے دیا تھا جب مریم نواز کی تقرری ہوئی تھی۔ انہوں نے پارٹی کی لیڈرشپ کو پہلے ہی اپنے فیصلے سے آگاہ کر دیا تھا کہ اگر مریم نواز کو کوئی عہدہ ملا تو وہ ان کے نیچے کام نہیں کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ن لیگ اور نواز شریف نے شاہد خاقان عباسی کو ہینڈل نہ کیا تو وہ بھی چودھری نثار والی سمت اختیار کر جائیں گے۔ شاہد خاقان اور مصطفیٰ نواز کھوکھر کو کھل کر بولنے کے لیے ایک موقع چاہئیے تھا اس لیے وہ سیمینار منعقد کروا کر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ دہشت گردی اب کے پی کے سے سندھ اور پنجاب کی طرف جائے گی اس لیے اس کو فوری روکنے کی ضرورت ہے۔ ایسے ماحول میں الیکشن کیسے ہو سکتے ہیں اور معاشی صورت حال کیسے بہتر ہو سکتی ہے۔

سجاد انور نے کہا کہ پہلے شہباز گل اور اعظم سواتی کا سوفٹ ویئر بھی اپ ڈیٹ ہوا تھا مگر انہوں نے پھر بھی وہی پالیسی جاری رکھی۔ اس لیے فواد چودھری کے سوفٹ ویئر کے اپ ڈیٹ ہونے سے بھی کوئی فرق نہں پڑے گا۔ جب تک ان کی تربیت کا مرکز درست نہیں ہو گا، سوفٹ ویئر اپ ڈیٹ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ریاست کا ابھی بھی عمران خان اور تحریک انصاف کے ساتھ وہ والا رویہ نہیں ہے جو ماضی میں باقی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ روا رکھا گیا۔ فواد چودھری کا معاملہ اتنا ہلکا نہیں تھا کہ 25 ہزار کے مچلکے لے کر عدالت ان کی ضمانت لے لیتی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ضمانت ہونے کے بعد کیس کی نوعیت کمزور ہو جاتی ہے، کیس آگے نہیں بڑھ پاتا۔ فواد چودھری کو جتنی آسانی سے ضمانت ملی ہے اس کیس کا بھی اب کچھ نہیں بنے گا۔

مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ پاکستان کے سینیئر سیاست دانوں کو زرداری صاحب سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے جنہوں نے پارٹی کے امور بلاول کے سپرد کر دیے ہیں۔ افغانستان میں جنگ بندی کے بعد طالبان اب پاکستان کا رخ کریں گے، وہ اب پاکستان کو جنگ اور دہشت گردی کی آماجگاہ بنانا چاہتے ہیں۔

میزبان رضا رومی نے کہا کہ پاکستان کی مڈل کلاس موروثی سیاست سے اکتا چکی ہے۔ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ نے موروثی عنصر کو بہت استعمال کیا ہے۔ مریم نواز اور شہباز شریف شاہد خاقان عباسی کو کیوں نہیں بلا رہے، نظر آ رہا ہے کہ ان کے درمیان دوریاں موجود ہیں۔

پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ ‘خبر سے آگے’ ہر پیر سے ہفتے کی رات 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے براہ راست پیش کیا جاتا ہے۔