'سپریم کورٹ میں بازگشت سنائی دی کہ تحلیل ہو چکی صوبائی اسمبلیاں بحال ہو سکتی ہیں'

'سپریم کورٹ میں بازگشت سنائی دی کہ تحلیل ہو چکی صوبائی اسمبلیاں بحال ہو سکتی ہیں'
سپریم کورٹ کے لارجر بنچ میں شامل دو جسٹس صاحبان نے آج بنیادی سوال اٹھائے ہیں۔ پرویز الہیٰ کی آڈیو لیک بھی ابتدائی سماعت ہی میں زیر بحث آ گئی ہے۔ اس سے لگ رہا ہے کہ ازخود نوٹس کیس لمبا چلے گا، ایسا نہیں ہے کہ تین ہی سوال ہیں اور لارجر بنچ چار سے پانچ دن میں فیصلہ سنا دے گا۔ سپریم کورٹ میں آج یہ بازگشت بھی سنائی دی ہے کہ تحلیل ہو جانے والی اسمبلیاں بحال بھی ہو سکتی ہیں۔ یہ کہنا ہے پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کا۔

نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ الیکشن کے حوالے سے پی ڈی ایم کے اندر بھی شاید بہت زیادہ اتفاق رائے نہ ہو۔ اتحادی حکومت کی طرف سے واضح نہیں کہ وہ چاہتے کیا ہیں۔ مریم نواز کی عدلیہ پر تنقید کسی حد تک حق بجانب ہے۔ عدالتیں کچھ عرصے سے عوامی جذبات کو دیکھ کر فیصلے کر رہی ہیں۔

بیرسٹر اویس بابر نے کہا ممکن ہے دونوں وزرائے اعلیٰ کو سپریم کورٹ بلا کر پوچھا جائے کہ آپ نے کیوں اسمبلیاں تحلیل کیں۔ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات سے متعلق لاہور ہائی کورٹ پہلے ہی فیصلہ دے چکی ہے جسے الیکشن کمیشن نے انٹرا کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔ یہ فیصلہ وہاں سے ہوتا ہوا سپریم کورٹ پہنچتا تو مناسب ہوتا۔ لارجر بنچ سے سینیئر دو ججوں کو باہر بٹھایا گیا ہے حالانکہ ان میں سے ایک اگلا چیف جسٹس ہے۔ اس بنچ کی دوبارہ سے تشکیل ہونی چاہئیے۔ ججوں کے خلاف ریفرنس فائل تو ہوتے ہیں مگر کسی نتیجے پہ نہیں پہنچتے۔

وکیل احمد پنسوتا نے کہا کہ اسمبلی کی تحلیل سے متعلق جج صاحب کا سوال غیر متعلق ہے کیونکہ اسمبلیوں کی تحلیل سے متعلق فیصلہ کابینہ میں ہوا ہے۔ سپریم کورٹ کا سوموٹو آئین کے آرٹیکل 184 کی شرائط پہ پورا اترتا ہے۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی دشمنی وہیں پر ہے جہاں جسٹس شوکت صدیقی کی تھی تو میرا خیال ہے ان کے خلاف دائر ہونے والا ریفرنس چلے گا۔

بیرسٹر رضا رحمان نے کہا کہ جو تین سوال سوموٹو میں اٹھائے گئے ہیں میرے حساب سے تو آئین ان پر واضح ہے۔ جس طرح کے سوال اب اٹھائے جا رہے ہیں 1973 کا آئین بنانے والے بھی حیران ہو رہے ہوں گے۔

پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ 'خبر سے آگے' ہر پیر سے ہفتے کی شب نیا دور ٹی وی سے براہ راست پیش کیا جاتا ہے۔