پنجاب اور کے پی انتخابات: از خود نوٹس کی سماعت کرنے والا سپریم کورٹ بینچ ٹوٹ گیا

پنجاب اور کے پی انتخابات: از خود نوٹس کی سماعت کرنے والا سپریم کورٹ بینچ ٹوٹ گیا
پاکستان کی سپریم کورٹ کا صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن کرانے کے ازخود نوٹس کی سماعت کرنے والا بینچ ٹوٹ گیا۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہرعلی اکبر نقوی، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہرمن اللہ پر مشتمل بینچ کو سماعت کرنی تھی تاہم سماعت شروع ہونے سے پہلے ہی 4 معزز جج صاحبان نے خود کو بنچ سے الگ کر لیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن جسٹس، مظاہر اکبر نقوی، جسٹس یحیٰ آفریدی، جسسٹس اطہر من اللہ نے بینچ میں شامل ہونے سے معذرت کی ہے۔

سپریم کورٹ نے 23 فروری کی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کر دیا۔ آڈر شیٹ میں جسٹس منصور علی شاہ،جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس اطہر من اللہ اور جمال خان مندوخیل کا اختلافی نوٹ شامل ہے۔

جسٹس یحیی آفریدی نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ عام انتخابات کا معاملہ پشاور اور لاہور ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے نوٹ میں لکھا ہے کہ سپریم کورٹ کے دو سینیئر ترین ججز کو عدالتی بینچ میں شامل نہیں کیا گیا۔

تحریری حکمنامے کے آخری صفحے پر لکھا گیا ہے کہ چار ججز کے اختلاف کے بعد عدالتی بینچ کی تشکیل نو کے لیے معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا دیا گیا۔

سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس پاکستان سمیت 5 ججز کورٹ روم نمبر 1 میں داخل ہوئے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 4 معزز ممبرز نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا ہے۔ عدالت کا باقی بینچ مقدمہ سنتا رہے گا۔ آئین کی تشریح کیلئے عدالت سماعت جاری رکھے گی۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔

چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر سماعت کر رہے ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ آئین کیا کہتا ہے اس کا دارومدار تشریح پر ہے۔کل صبح ساڑھے 9 بجے نوٹس کی سماعت شروع کرکے ختم کرنےکی کوشش کریں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جب تک حکم نامہ ویب سائٹ پر نہ آجائے جاری نہیں کرسکتے، جسٹس جمال مندوخیل کا نوٹ حکم نامے سے پہلے ہی سوشل میڈیا پر آگیا۔ مستقبل میں احتیاط کریں گے کہ ایسا واقعہ نہ ہو۔

گزشتہ سماعت کے دوران جمعے کو حکمران اتحاد کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کا مشترکہ بیان پڑھتے ہوئے جسٹس اعجازالحسن اور جسٹس مظاہر نقوی کو لارجر بینچ سے الگ کرنے کی استدعا کی۔ وکیل نے کہا کہ 2 ججز کے بینچ میں شامل ہونے پر اعتراض ہے۔ اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی اپنے آپ کو بینچ سےالگ کردیں۔ انہیں بنچ میں نہیں بیٹھنا چاہیے۔ اعتراض کرنے کا فیصلہ ہمارے قائدین نے کیا ہے۔

فاروق ایچ نائیک نے غلام محمود ڈوگر کیس میں دونوں ججز کا فیصلہ بھی پڑھ کر سنایا جب کہ جسٹس جمال کا گزشتہ روز کا نوٹ بھی پڑھا۔فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ جسٹس جمال مندوخیل کے نوٹ کے بعد جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی اپنے آپ کو بینچ سے الگ کر لیں۔

پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور جمیعت علمائے اسلام کی جانب سے مقدمے کی سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دینے کی درخواست بھی دائر کی گئی تھی۔

گزشتہ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا تھا کہ پیر کو ججز کے معاملے پر معترضین کو سنیں گے۔ اور معاملے کے قابلِ سماعت ہونے پر بھی دلائل کو سنا جائے گا۔

جسٹس اطہر من اللہ  اور جسٹس منصور علی شاہ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے طریقہ کار پر سوال اٹھا چکے ہیں۔

واضح رہے کہ 22 فروری کو خیبر پختونخوا اور پنجاب میں الیکشن کے معاملے پر چیف جسٹس پاکستان نے ازخود نوٹس لیا  تھا۔

ازخود نوٹس پر سماعت کے لیے 9 رکنی لارجر بینچ بھی تشکیل دیا گیا تھا۔