ججز کی تنخواہوں میں کٹوتی سے انتخابات ہو سکتے ہیں، چیف جسٹس کے ریمارکس

ججز کی تنخواہوں میں کٹوتی سے انتخابات ہو سکتے ہیں، چیف جسٹس کے ریمارکس
سپریم کورٹ میں جاری سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال  نے ریمارکس دیے کہ جمہوریت کے لیے انتخابات ضروری ہیں۔ حکومت اخراجات کم کر کے 20 ارب نکال سکتی ہے۔ 20 ارب کا کٹ ہماری تنخواہوں پر بھی لگایا جاسکتا ہے۔ 5 فیصد تنخواہ کٹنے سے الیکشن کا خرچہ نکل سکتا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے انتخابات ملتوی کرنے کیخلاف کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ جسٹس منیب اختر، جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس امین الدین اور جسٹس جمال خان مندوخیل بھی لارجر بنچ میں شامل ہیں۔

نئے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اور  سینیٹر فاروق نائیک عدالت میں پیش ہوئے۔

چیف جسٹس نے سماعت کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ کارروائی کو لمبا نہیں کرنا چاہتے۔سادہ سا سوال ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ آگے کر سکتا ہے یا نہیں۔ اگر الیکشن کمیشن کا اختیار ہوا تو بات ختم ہوجائے گی۔ ابھی الیکشن کمیشن کے انتخابات ملتوی کرنے کے اختیار کو دیکھ رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو نوٹس کرنے کا معاملہ بعد میں دیکھیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ گزشتہ روز یہ درخواست کی تھی کہ سیاسی جماعتیں یقین دہانی کرائیں۔ سپریم کورٹ اچھی نیت کیساتھ کیس سن رہی ہے۔فریقین نے فیصلہ کرنا ہے کہ حالات کو کس طرف لیکر جاتے ہیں۔ عدالت نے حقیقت کو دیکھ کر آگے بڑھنا ہے۔ عدالت ملک اور عوام میں ڈسپلن چاہتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے اٹارنی جنرل کو سنیں گے۔سیاسی جماعتوں کو فریق بنانے کے لیے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے نکتہ اٹھایا تھا۔ جمہوریت کے لیے قانون کی حکمرانی لازمی ہے۔ قانون کی حکمرانی کے بغیر جمہوریت نہیں چل سکتی۔ سیاسی درجہ حرارت اتنا زیادہ ہوگا تو مسائل بڑھیں گے۔

اٹارنی جنرل عثمان منصور اعوان نے گزشتہ روز کے ججز کے اختلافی فیصلے کا حوالہ دیا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ قانون نے صدر مملکت کو الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار دیا ہے۔ عدالت کا یکم مارچ کا فیصلہ اس وقت موجود ہے۔ انتخابات کا اعلان صدر مملکت کرچکے تھے۔ عدالت میں جو کارروائی ہوئی تھی وہ تاریخ مقرر کرنے کی نہیں بلکہ جو تاریخ مسترد کی گئی تھی اس پر تھی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جمہوریت حکومت کا ایک ایسا نظام ہے جس سے نظام چلایا جاتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی فیصلہ اگر چار تین کا ہوا تو کسی حکم کا وجود ہی نہیں جس کی خلاف ورزی ہوئی۔ عدالتی حکم نہیں تھا تو صدر مملکت تاریخ بھی نہیں دے سکتے تھے۔ اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ یکم مارچ کے عدالتی حکم کو پہلے طے کر لیا جائے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت مقدمہ تاریخ دینے کا نہیں منسوخ کرنے کا ہے۔ جمہوریت کیلئے انتخابات ضروری ہیں۔ تکنیکی بنیادوں پر معاملہ خراب نہ کریں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ دو معزز ججز نے فیصلہ دیا ہے۔ ان دو ججز کی اپنی رائے ہے لیکن اس کا موجودہ کیس سے کوئی تعلق نہیں۔ ایک سنجیدہ معاملے کو بائی پاس نہ کریں۔ بینچ کے ارکان درخواست میں اٹھائے گئے سوال کا جائزہ لینے بیٹھے ہیں۔ سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار  درخواست تک محدود نہیں ہوتا۔

اس موقع پر اٹارنی جنرل منصور عثمان نے فل کورٹ بنانےکی استدعا کرتے ہوئےکہا کہ درخواست ہےکہ یہ اہم معاملہ ہے اور  بینچ مناسب سمجھے تو فل کورٹ بنا دے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ یکم مارچ کا سپریم کورٹ کا فیصلہ کتنے ارکان کا ہے یہ سپریم کورٹ کا اندرونی معاملہ ہے۔ عدالتی فیصلہ کتنے ارکان کا ہے یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے۔ یہ بتائیں کہ کیا 90 روز میں انتخابات کرانا آئینی تقاضا نہیں ہے؟ کیا الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ منسوخ کر سکتا ہے؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ معاملہ کلیئر کرنے پر جسٹس جمال مندوخیل کا مشکور ہوں۔لوگ آٹے کیلئے لائنوں میں لگے ہوئے ہیں۔تحریک انصاف اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ملکی حالات کو بہتر کیا جائے۔ تمام قومی اداروں کا احترام لازمی ہے۔

پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل علی ظفر نے کہا کہ ہر ادارے کو اپنی آئینی حدود میں کام کرنا ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی اعلیٰ قیادت سے بھی ایسے رویے کی توقع ہے۔ پی ٹی آئی کو پہل کرنی ہوگی کیونکہ عدالت سے رجوع انہوں نے کیا ہے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ملک میں اس وقت تشدد اور عدم برداشت ہے۔معاشی حالات دیکھیں آٹے کے لیے لائنیں لگی ہوئی ہیں۔آپس میں دست و گریبان ہونے کے بجائے ان لوگوں کا سوچیں۔ اس پر علی ظفر نے کہا کہ انتخابات تاخیر کا شکار ہوئے تو بحران مزید بڑھے گا۔

جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن شیڈول 90 دن سے کم کیا جاسکتا ہے؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کے پاس 90 دن کا اندر شیڈول ایڈ جسٹ کرنے کا اختیار ہے۔الیکشن کمیشن بظاہر 90 دن سے تاخیر نہیں کرسکتا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اب 90 دن بھی گزر گئے ہیں۔ آئین کی ہمارے ملک میں کوئی پرواہ نہیں کرتا۔الیکشن تو ہر صورت ہونے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اب 90 دن سے زیادہ تاریخ کون بڑھائے گا؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ایک بندے کی خواہش پر اسمبلی تحلیل ہونی چاہیے؟

اس پر پی ٹی آئی وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ وزیراعظم اور ویزاعلیٰ منتحب نمائندے ہوتے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر وزیراعظم کی اپنی جماعت عدم اعتماد لانا چاہے تو اسمبلی ٹوٹ سکتی ہے۔ اس پر علی ظفر نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد آجائے تو اسمبلی تحلیل نہیں ہو سکتی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا پارلیمنٹ کو اس معاملے کو نہیں دیکھنا چاہیے؟ اس پر علی ظفر نے کہا کہ وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ کے اختیار پر پارلیمنٹ بحث کرسکتی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ صدر مملکت کی تاریخ پر الیکشن کمیشن  نے شیڈول جاری کیا۔ سوال یہ ہے کیا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے کہ صدر مملکت کی تاریخ کو تبدیل کر دے؟۔ کیا الیکشن کمیشن 90 دن سے زیادہ کی تاخیر کر سکتا ہے؟ سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن کمیشن ایسا کر سکتا ہے؟ وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پنجاب کی حد تک عدالتی فیصلے پر عمل کیا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کے پاس تاریخ کا تعین کرنے کا اختیار ہے؟ کیا الیکشن کمیشن صدر کی تاریخ کو تبدیل کر سکتا ہے؟ الیکشن ایکٹ کا سیکشن 58 انتخابات منسوح کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ 2008 میں انتخابات تاخیر کا شکار ہوئے تھے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے آئین کے دو آرٹیکلز کا سہارا لیا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے وجوہات بتا کر کہا کہ آئینی ذمے داری ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ اگر الیکشن کمیشن 8 اکتوبر کی تاریخ نہ دیتا تو کیا ہوتا؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن تاریح تبدیل کرنے کے لیے صدر سے رجوع کرسکتا تھا۔ تمام انتظامی ادارے الیکشن کمیشن سے تعاون کے پابند ہیں۔ وجوہات ٹھوس ہوں تو ہی کمیشن رجوع کرسکتا ہے۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ آرٹیکل220 تمام حکومتوں اور اداروں کو کمیشن سے تعاون کا پابند کرتا ہے۔ الیکشن کمیشن نے صرف اداروں سے مؤقف لے کر فیصلہ لکھ دیا۔ عدالت کمیشن سے پوچھے کہ آئینی اختیار استعمال کیوں نہیں کیا۔ انتظامی ادارے تعاون نہ کریں تو آرٹیکل 5 کا اطلاق ہو گا۔ ہر ادارہ آئین اور شخص قانون پر عمل کرنے کا پابند ہے۔

جسٹس منیب نےکہا کہ اگر انتخابات ممکن نہیں تھے تو الیکشن کمیشن کو عدالت سے رجوع کرنا چاہیے تھا، ایک اسمبلی کے شیڈول کے دوران دوسری اسمبلی تحلیل ہو تو ایک ہی دن انتخابات کرانے کے لیے رجوع کیا جاسکتا ہے، الیکشن کمیشن ازخود انتخابات ملتوی کرنے کا حکم جاری نہیں کرسکتا، الیکشن کمیشن 6 ماہ الیکشن آگے کرسکتا ہے تو 6 سال بھی کرسکےگا۔

جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ انتخابات آگے کون لے جاسکتا ہے اس پر آئین خاموش ہے،کیا پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم نہیں کرنی چاہیے؟

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمنٹ ترمیم کرلے تو یہ سب سے اچھا ہوگا، سوال یہ ہے کہ ترمیم ہونے تک جو انتخابات ہونے ہیں ان کا کیا ہوگا؟ اگر فنڈز کا معاملہ ہے تو نگران حکومت فنڈز کیسے دے گی؟  اخبار میں وزیر اعظم کا بیان پڑھا تھا، وفاقی حکومت کہتی ہے مارچ تک 500 ارب ٹیکس جمع کیا، حیرت ہے کہ انتخابات کے لیے  500 میں سے 20 ارب نہیں دیےگئے، سیکرٹری خزانہ نے تو کہا الیکشن کے لیے  فنڈز نہ ابھی ہیں نہ آگے ہوں گے، اس کا مطلب ہے کہ الیکشن تو ہوں گے ہی نہیں، حکومت کا کوئی سیکرٹری ایسا فنٹاسٹک بیان کیسے دے سکتا ہے۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے انتخابات کے لیے ججز کی تنخواہوں میں کٹوتی کی تجویز دے دی۔ ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کے لیے پورے بجٹ کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ 20 ارب کے لیےکٹ ہماری تنخواہوں پربھی لگایا جاسکتا ہے۔ حکومت اخراجات کم کرکے 20 ارب نکال سکتی ہے۔ 5 فیصد تنخواہ کٹنے سے الیکشن کا خرچہ نکل سکتا ہے۔

وکیل فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈز کے اخراجات پارلیمنٹ کی منظوری سے خرچ ہوتے ہیں۔ موجودہ کیس میں قومی اسمبلی موجود ہے، نئی اسمبلی اخراجات کی منظوری دیتی ہے۔سیکرٹری خزانہ کے بیان کا جواب الیکشن کمیشن ہی دے گا۔

جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ سیکرٹری خزانہ منظور کردہ  بجٹ سے ہٹ کر فنڈز کیسے دے سکتا ہے؟

چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ ملک معاشی بحران سے گزر  رہا ہے۔ معاشی بحران کی حقیقت سے نظر نہیں چرائی جاسکتی، بحران سے نمٹنےکے لیے قربانی دینا ہوتی ہے۔ پانچ فیصد تنخواہ کٹنے سے الیکشن کا خرچہ نکل سکتا ہے۔ خیبرپختونخوا میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سب سے زیادہ آپریشن کیے۔ پنجاب میں اب تک صرف 61  آپریشن ہوئے۔ سندھ میں367، خیبرپختونخوا میں 1245 آپریشن ہوئے۔ پنجاب کی صورتحال خیبرپختونخوا سے مختلف ہے۔ ترکیہ میں زلزلہ متاثرہ علاقوں کے علاوہ ہر جگہ الیکشن ہو رہے ہیں۔ ایمرجنسی لگا کرہی الیکشن ملتوی کیے جاسکتے ہیں۔