دیگر اداروں کو بھی مشاورت سے فیصلے کرنے چاہیے: وزیراعظم

دیگر اداروں کو بھی مشاورت سے فیصلے کرنے چاہیے: وزیراعظم
وزیراعظم شہبازشریف نے کہا کہ جس طرح حکومت ہر ہفتے کابینہ میں ہر معاملہ لے کر جاتے ہیں۔ باقی اداروں کو بھی کابینہ میں فیصلے کرنے چاہیے۔

وزیراعظم شہبازشریف نےپارلیمنٹ کےمشترکہ اجلاس میں اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ جو وزیراعظم کا اختیار ہے وہ کابینہ کا اختیار ہے۔ میں بطور وزیراعظم جو بھی فیصلے کرتا ہوں کابینہ کی مشاورت سے کرتا ہوں۔ جس طرح ہم ہر ہفتے کابینہ میں ہر معاملہ لے کر جاتے ہیں۔ باقی اداروں کو بھی کابینہ میں فیصلے کرنے چاہیئیں۔ اگر یہ کام ہم کررہے ہیں تو باقی کیوں نہیں کرسکتے۔

شہباز شریف نے کہا کہ 29 نومبر کو پاکستان کے نئے سپہ سالار کا چناؤ ہوا۔ آرمی چیف کو مقرر کرنا وزیراعظم کا اختیار ہے۔ دراصل یہ کابینہ کا فیصلہ ہوتا ہے۔ ہم نے کابینہ کے فیصلے سے جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف اور جنرل ساحر شمشاد کو جوائنٹ چیفس آف سٹاف بنایا۔ یہ 100 فیصد میرٹ پر فیصلہ تھا۔

انہوں نے کہا کہ آج پی ٹی آئی کے ٹرولز باہر سے بیٹھ کر فوج کی قیادت کے خلاف جو زبان استعمال کر رہے ہیں۔ ایسا پاکستان کی 75سالہ تاریخ میں نہیں ہوا۔

شہباز شریف نے کہا کہ لسبیلہ شہدا کے بارے میں عمران نیازی کے سوشل میڈیا نے بھیانک ٹرولنگ کی۔ لسبیلہ کے شہدا پر اسکے حواریوں نے سوچ سے گری باتیں کی۔ عمران خان کے گھر میں دہشت گرد دندناتے پھرتے ہیں۔ وہاں سے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر پیٹرول بم پھینکے گئے۔ ان انہیں ضمانتیں مل رہی ہیں۔ اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ایوان کوان معاملات کا فی الفورنوٹس لیناہوگا۔

وزیراعظم شہبازشریف نے عمران خان کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس لاڈلے کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ قانون اپنا راستہ اختیار کرے گا۔ بہت ہوگیا۔ پلوں سے پانی بہت بہہ گیا ہے۔ کبھی دیکھا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ ایسا سلوک ہوا ہو؟پھر بھی ضمانت پرضمانت مل رہی ہے۔ یہ تو جنگل کا قانون ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس لاڈلے کی حکومت کے نتیجے میں آئی ایم ایف سے جو معاہدہ کیا گیا اس کو تار تار میں نے نہیں کیا۔میری حکومت نے وعدہ خلافی نہیں کی۔ اس عمران نیازی نے معاہدہ کیا اور آئی ایم ایف کے معاہدے کی خلاف ورزی کی اور پاکستان کو ڈیفالٹ کی نہج پر پہنچایا۔ عمران نیازی نے آئی ایم ایف کیےساتھ معاہدے میں انحراف کیا۔ بڑی مشکل سے اس مخلوط حکومت نے شب و  روز کوشش کرکے پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچایا۔آج بھی ہم آئی ایم ایف کے ساتھ انگیج ہیں لیکن جو وعدوں کی خلاف ورزیاں ہوئیں جس طرح ہم نے ملکی وقار کو مجروح کیا آج آئی ایم ایف قدم قدم پر ہم سے گارنٹیز لیتا ہے جو ہم دے رہے ہیں۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ وزیر خزانہ نے تمام شرائط مکمل کردی ہیں۔اب کہا جارہا ہے کہ دوست ممالک سے کمٹمنٹ کو پورا کیا جائے۔ وہ بھی ہم کررہے ہیں۔

خطاب کے دوران وزیر اعظم نے کہا کہ ہم آئین کے تحت ہی تحریک عدم اعتماد لائے۔ ملک میں بڑے بڑے افلاطون اور ڈرامے باز آئے ہوں گے لیکن ایسا ٹوپی ڈراما نہیں آیا جس نے ملک کی بنیادیں ہلادیں۔ حکومتوں میں شامل جماعتوں نے پاکستان کی ریاست کو بچانے کے لئے اپنی سیاست کو داؤ پر لگا دیا۔  11 ماہ گزرگئے ہم دوست ممالک کو راضی کرنے میں لگے ہیں۔ امریکا سے بہتر تعلقات کی کوشش کررہے ہیں جو تباہی خارجہ محاذ پر اس نے کی وہ بیان نہیں کرسکتا۔کس طرح برادر ممالک کو ناراض کیا گیا۔ ہم اسی پر لگے ہوئے ہیں جو ہوگیا اسے جانے دیں۔ وہ ایک غیر سنجیدہ آدمی تھا۔ اس نے چین کے ساتھ بھی یہی کچھ کیا۔اب اسی عمران نیازی نے امریکا میں لابنگ کمپنیوں کی خدمات حاصل کی ہیں۔ پاکستان کے خلاف ناٹک رچایا جارہا ہے۔ کچھ لوگوں سے بیانات دلوائے جارہے ہیں۔ جنہوں نے بیان دیا ان کو کیا حق پہنچتا ہے وہ ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کریں۔ لاڈلےکوپاکستان سےکھلواڑ کی اجازت نہیں دی جائےگی۔

وزیر اعظم نے کہا کہ آئین نے اختیارات کی تقسیم واضح کردی۔ مقننہ عدلیہ اور انتظامیہ کے اختیارات بیان کردئیے۔ ریڈلائن لگادی کہ کوئی اس کو عبور نہیں کرسکے گا۔ بعد میں کیا کیا ہوا سب کے سامنے ہے۔ آج اس آئین کا سنگین مذاق اڑایا جارہا ہے۔ آئین میں موجود مقننہ اور  عدلیہ کے اختیارات کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں۔ ایک لاڈلہ کسی عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوتا۔

سپریم کورٹ کے بارے میں بات کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ کل 2 ججز نے کہا کہ الیکشن سے متعلق فیصلہ 3 کے مقابلے 4 کی اکثریت کا تھا اور انہوں نے اپنے فیصلے میں کئی سوالات اٹھائے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے بعد وقت کی اشد ضرورت ہے کہ ہم اس ایوان میں بیٹھیں اور اپنی معروضات پیش کریں کہ کل جو فیصلہ آیا اس کے حوالے سے پارلیمان کیا قانون سازی کر سکتی ہے کیوں کہ پارلیمان کو ملکی مفاد میں ہر طرح کی قانون سازی کا اختیار ہے۔

وزیراعظم نے کہا عدلیہ کے اندر سے اٹھنے والی یہ آوازیں امید کی نئی کرن ہیں جب عدل نظر آئے تو اس ملک میں تمام خطروں کے بادل چھٹ جائیں گے اور ترازو کا توازن جنگل کے قانون کو بدلے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ آج ججز کے نام گلی محلوں کے بچوں کے منہ پر ہیں اگر ہمیں اسے ختم کرنا ہے تو انصاف کا بول بالا ہونا چاہیے اس کے لیے قانون، آئین ہمیں اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ہم قانون سازی کریں۔

وزیراعظم نے کہا کہ اگر کل کے فیصلے کے بعد ہم نے قانون سازی نہیں کی تو مؤرخ ہمیں معاف نہیں کرے گا۔ آنے والی نسلیں معاف نہیں کریں گی اس لیے ہمیں آج یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کروڑوں عوام کو ریلیف دلانا ہے یا ایک لاڈلے کو ریلیف دینا ہے۔ آئین و قانون پر عمل کرنا ہے یا جنگل کے قانون کو ملک میں چلتے رہنا ہے۔