منتخب صوبائی حکومتوں کی موجودگی میں منصفانہ انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں: وفاقی حکومت

منتخب صوبائی حکومتوں کی موجودگی میں منصفانہ انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں: وفاقی حکومت
وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ پنجاب اور کے پی میں منتخب حکومتوں کی موجودگی میں قومی اسمبلی کے منصفانہ انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں۔

ایک سینئر کورٹ رپورٹر نے ٹویٹر پر کہا کہ وفاقی حکومت نے ایک جامع بیان کے ذریعے سپریم کورٹ کو اپنی تشویش سے آگاہ کیا۔

صحافی نے ٹویٹ میں لکھا کہ وفاقی حکومت نے ایک جامع بیان جمع کرواتے ہوئے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ موجودہ آئینی اسکیم کے تحت پنجاب اور خیبرپختونخوا میں منتخب صوبائی حکومتوں کی موجودگی میں قومی اسمبلی کے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں۔

حکومتی بیان میں مزید بتایا گیا کہ یہ سچ ہے کہ منتخب حکومتوں کی موجودگی میں ضمنی انتخابات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔تاہم عام انتخابات کے انعقاد کے لیے اسے ایک معیار کے طور پر نہیں لیا جا سکتا۔ ماضی میں بھی ایسے واقعات ہوتے رہے ہیں جب بڑے پیمانے پر دھاندلی کے الزامات لگتے رہے ہیں۔

یاد رہے کہ چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات میں تاخیر کا ازخود نوٹس لیا تاہم اس کے بعد سےاس معاملے پر ججوں کے درمیان واضح تقسیم دیکھی گئی ہے۔

بہت سے جج صاحبان نے اس کیس کی سماعت کرنے والے بینچ سے خود کو الگ کر لیا اور اس کیس کی سماعت کرنے والا بینچ اب سکڑ کر تین رکنی ہو گیا ہے جو کہ پہلے پانچ رکنی تھا۔

یکم اپریل کو حکومتی اتحاد نے پنجاب کے انتخابات میں تاخیر کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ پر 'عدم اعتماد' کا اظہار کیا تھا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل بینچ الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات 8 اکتوبر تک ملتوی کرنے کے خلاف درخواست کی سماعت کر رہا ہے۔

میٹنگ کے بعد جاری کردہ ایک بیان میں اتحادی رہنماؤں نے سپریم کورٹ سے کہا کہ وہ اس سے قبل ازخود نوٹس کی سماعت میں چار رکنی اکثریتی فیصلے کے پیش نظرموجودہ  کارروائی ختم کرے۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ چیف جسٹس بندیال "اکثریت کے فیصلے پر اقلیت کا فیصلہ مسلط کرنا چاہتے ہیں۔"

بیان میں کہا گیا ہے کہ "یہ نقطہ نظر نہ صرف ملک میں آئینی اور قانونی بحران پیدا کرے گا بلکہ یہ آئین اور قائم شدہ قانونی اصولوں سے انحراف کی ایک مثال ہے۔"

اتحادی رہنماؤں نے مزید کہا کہ یہ نقطہ نظر ریاست کے اندر اختیارات کی تقسیم کے بنیادی تصور کے بھی خلاف ہے۔

ایک روز قبل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اٹارنی جنرل پاکستان منصور اعوان کی درخواست کی سماعت کے لیے فل کورٹ بنانے کی درخواست مسترد کر دی تھی۔

سپریم کورٹ نے پنجاب اور کے پی میں انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست کی سماعت پر اٹارنی جنرل منصور اعوان  کی فل کورٹ بنانے کی درخواست مسترد کر دی تھی۔

عدالت کے مطابق فل کورٹ کے لیے تمام ججز کی دستیابی آسان نہیں ہوتی۔ معمول کے کیسز بھی متاثر ہوتے ہیں قانون یا قواعد مکمل عدالت کی تشکیل کی حمایت نہیں کرتے۔ اور ایسا کرنے سے معاملے پر عدالتی کارروائی دوبارہ شروع کرنا ہو گی۔

معززجج نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین خان کی جانب سے اپنے ازخود اختیارات پر جاری کیے گئے حکم کو بھی ’نظر انداز‘ کیا اور کہا کہ یہ پانچ رکنی لارجر بینچ کے وضع کردہ قوانین کی خلاف ورزی ہے۔