'چیف جسٹس وہاں کھلواڑ کر رہے ہیں جہاں آئین پہلے ہی بہت واضح ہے'

'چیف جسٹس وہاں کھلواڑ کر رہے ہیں جہاں آئین پہلے ہی بہت واضح ہے'
الیکشن 90 دن میں ہونے چاہئیں، فل کورٹ بھی ہوتا تو یہی فیصلہ آنا چاہئیے تھا مگر حالات کچھ ایسے ہیں جن میں یہ ممکن نہیں ہے۔ جو مسائل مجھے اور آپ جیسے عام لوگوں کو نظر آ رہے ہیں وہ عدلیہ کے سربراہ کو کیوں نہیں نظر آتے؟ وہ کیوں سمجھتا ہے کہ وہ اور اس کے دو ساتھی پاکستان کو سب سے بہتر سمجھتے ہیں؟ وہ کیوں سمجھتا ہے کہ وہ عدلیہ کے ادارے سے بھی زیادہ اہم ہے؟ وہ خود کو کیوں مسیحا سمجھ بیٹھا ہے؟ سپریم کورٹ کا سربراہ باقی ججوں جیسا ایک جج ہے، اسے یہ بات سمجھ لینی چاہئیے۔ چیف جسٹس وہاں کھلواڑ کر رہے ہیں جہاں آئین پہلے ہی بہت واضح ہے۔ یہ کہنا ہے تجزیہ کار ضیغم خان کا۔

نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے صحافی اعزاز سید نے کہا کہ عرفان قادر نے ایک سینیئر کے انداز میں چیف جسٹس سے کہا کہ کورٹ کے اندر سے جو آوازیں اٹھ رہی ہیں ان کو بھی سنا جائے۔ ون مین شو والی بات پہ چیف جسٹس نے کہا کہ میری ان جسٹس صاحب سے بات ہوئی ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ میں نے عمومی انداز میں فیصلہ لکھا ہے۔ آج کچھ اشارے ملے جن سے پتہ چلتا ہے کہ چیف جسٹس بنچ میں شامل موجودہ ججوں کے ساتھ ہی کل الیکشن کروانے کا فیصلہ سنا دیں گے۔

پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نے کہا کہ اگر چیف جسٹس اسی قسم کا فیصلہ سناتے ہیں جو اعزاز سید کہہ رہے ہیں تو اس فیصلے پہ عمل درآمد کروانا مشکل ہو جائے گا۔ اگر سپریم کورٹ کے فیصلے پہ عمل نہیں کروایا جا سکتا تو یہ مایوس کن صورت حال بن جائے گی جس کے بعد توہین عدالت کے بھی مقدمات قائم کرنے پڑیں گے۔

حسن ایوب خان نے کہا کہ چیف جسٹس اور ان کے ساتھی ججز خاصے دباؤ میں ہیں۔ ان کو یہ بھی تشویش ہے کہ ان کے فیصلے پر عمل درآمد ہو گا بھی یا نہیں۔ ہفتے کو چیف جسٹس نے ساتھی ججز کو اپنے گھر بلا کر ان کے ساتھ اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی۔ ذرائع کے مطابق فل کورٹ کی بات پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس اعجاز الاحسن کو شامل نہ کیا جائے جس کے بعد ملاقات بے نتیجہ ختم ہو گئی۔ چیف جسٹس تین چار ساتھ ججوں کے ساتھ مل کر باقی ججوں، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ لڑنے جا رہے ہیں۔

مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ سیاسی معاملے میں گھسیٹ کر عدلیہ نے خود کو متنازعہ بنا لیا ہے۔ سیاست دانوں کے اکٹھے بیٹھ کر اس مسئلے کو حل کرنے کے علاوہ کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔

پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ 'خبر سے آگے' ہر پیر سے ہفتے کی شب 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے پیش کیا جاتا ہے۔