'چیف جسٹس بندیال قاضی فائز عیسیٰ کے معاملات کو ذاتی نوعیت کا معاملہ بنا چکے ہیں'

'چیف جسٹس بندیال قاضی فائز عیسیٰ کے معاملات کو ذاتی نوعیت کا معاملہ بنا چکے ہیں'
پارلیمنٹ کے پاس اختیار ہے کہ وہ عدالتی طریقہ ہائے کار سے متعلق اصلاحات لا سکتی ہے۔ دوسری جانب سپریم کورٹ سے سوموٹو کا اختیار واپس لیا نہیں جا رہا، اسے محض ایک ہاتھ سے لے کر باقی لوگوں کو اس میں شامل کرنے کا مطالبہ ہو رہا ہے۔ ماضی میں وکلا برادری بھی ان اصلاحات کے حق میں رہی ہے۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ معاملات کو بہت ذاتی نوعیت کا مسئلہ بنا لیا ہے۔ میری رائے میں باقی جج صاحبان کو بھی آج پارلیمنٹ کے اس کنونشن میں شرکت کرنی چاہئیے تھی۔ یہ کہنا ہے قانون دان مریم خان کا۔

نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبرسےآگے' میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں ایک ہائبرڈ رجیم سٹرکچر ہے جہاں سول ملٹری ریلیشن میں ہمیشہ ڈیڈلاک رہا ہے۔ ہمارے ہاں آئین کو پوری طرح کبھی عمل میں ہی نہیں لایا گیا۔ اب لایا جا رہا ہے تو بہت سارے سوالات اٹھ رہے ہیں اور بہت ساری چیزیں سامنے آ رہی ہیں جنہیں طے کرنا ضروری ہے اور یہ اچھی بات ہے۔

بیرسٹر اویس بابر نے کہا کہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عدالتی اصلاحات سے متعلق سوموٹو لے لیا جائے حالانکہ اب اس کے امکان بہت کم ہیں۔ یا پھر کوئی نہ کوئی ان اصلاحات کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دے گا اور پھر ایک سرکس چلے گی۔ سوموٹو کے بارے میں قواعد موجود نہیں ہیں، افتخار چودھری کے زمانے سے یہ روایت پر چل رہا ہے۔ سپریم کورٹ میں جو مختلف نکتہ ہائے نظر سامنے آئے ہیں میں انہیں خوش آئند سمجھتا ہوں۔ یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے اور اس سے ضرور ہم بہتری کی جانب جائیں گے۔

پارلیمنٹ کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ ماضی کے معاملات سے متعلق بھی قانون سازی کر سکتی ہے اور ماضی میں جا کر بھی چیزوں کو پروٹیکشن دے سکتی ہے۔ جج صاحبان مخصوص پروٹوکول کی پابندی کر کے اس طرح کی جگہوں پہ جاتے ہیں تو اس میں کوئی مسئلہ نہیں۔ قاضی فائز عیسیٰ نے پارلیمنٹ میں کوئی ذاتی بات نہیں کی بلکہ اپنے ادارے کی طرف سے نمائندگی کی۔

رپورٹر وقار ستی نے کہا کہ آئین کی پچاسویں سالگرہ پر پارلیمنٹ میں ایک کنونشن ہوا جس میں سابق اراکین پارلیمنٹ کے علاوہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی شامل ہوئے۔ پارلیمنٹ کی آج کی کارروائی کا خلاصہ یہ ہے؛ پارلیمنٹ اس بات پر متفق تھی کہ کسی کو بھی آئین کے دائرے سے باہر نہیں جانے دیا جائے گا۔ عدالتی اصلاحات کا بل دوبارہ صدر پاکستان کے پاس جائے گا اور 10 روز کے اندر وہ اس پر دستخط نہیں کرتے تو یہ خود بخود قانون کا حصہ بن جائے گا۔

مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم میں جو وزارتیں صوبوں کے حوالے کی گئیں، بعد میں مرکز میں بھی نام بدل کر وہی وزارتیں قائم کر لی گئیں جس سے خرچہ دوگنا ہو گا۔ بین الصوبائی ہم آہنگی کا محکمہ عضو معطل بنا ہوا ہے۔ مشترکہ مفادات کونسل کا سیکرٹریٹ ابھی تک نہیں بنا۔ آئین میں مزید اصلاحات کی ضرورت ہے۔

پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ 'خبرسےآگے' ہر پیر سے ہفتے کی شب 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے پیش کیا جاتا ہے۔