عمران خان پر کسی قسم کا تشدد نہیں کیا گیا: رانا ثنا اللہ

عمران خان پر کسی قسم کا تشدد نہیں کیا گیا: رانا ثنا اللہ
وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے گرفتاری کے وقت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) چیئرمین عمران خان پر تشدد کیے جانے کی افواہوں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان پر کسی قسم کا تشدد نہیں کیا گیا اگر وہ شامل تفتیش ہوجاتے تو  ریفرنس بغیر گرفتاری کے چلایا جاسکتا تھا۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہاکہ عمران خان کی گرفتاری کے وقت کسی پر تشدد نہیں کیا گیا۔ گرفتاری میں مزاحمت ہوئی لیکن وہ زیادہ نہیں تھی۔ کسی کو تشدد کا نشانہ نہیں بنایا گیا۔ گرفتاری کے وقت شیشے دھکم پیل سے ٹوٹے رینجرز نے نہیں توڑے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ چیئرمین تحریک انصاف کو پکڑے جانے کے رد عمل میں کسی نے امن و امان خراب کرنے کی کوشش کی تو قانون پوری طاقت سے نافذ ہوگا۔عمران خان ملک دشمن قوتوں کے ساتھ ملکر پاکستانی اداروں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے دیگر رہنما بھی ایسی کارروائی میں ملوث ہیں۔ ایجنسی کے خلاف عمران خان کا بیان بھی اسی سازش کا حصہ ہے۔

عمران خان کے خلاف درجنوں مقدمات درج ہیں۔ نیب نے ان کی گرفتاری القادرٹرسٹ کیس میں کی ہے۔ 8 ماہ پہلے اس پراپرٹی کی تفصیلات پیش کی تھیں۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے قومی خزانے کو 7 ارب کی کرپشن کا ٹیکا لگایا۔ اگر عمران خان شامل تفتیش ہوجاتے تو ریفرنس بغیر گرفتاری کے چلایا جاسکتا تھا۔رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ نوٹسز کے باوجود عمران خان پیش نہیں ہوئے۔ قومی خزانےکو نقصان پہنچانے  پر نیب کی جانب سے گرفتاری کی گئی ہے۔

یہ رقم قومی خزانے میں واپس آنا تھی۔شہزاد اکبر معاملے کے درمیان میں آیا اور معاملات طے کیے گئے۔ 7 ارب کی پراپرٹی کی قیمت ہے۔ 2 ارب روپے شہزاد اکبر نےعلیحدہ سے لیے۔

وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ 240 کنال بنی گالہ میں بھی القادر ٹرسٹ کے نام پر رجسٹرڈ ہوئی۔ پراپرٹی ٹائیکون کی رقم منی لانڈرنگ میں پکڑی گئی۔ القادر ٹرسٹ کی ایک پیسے کی بھی منی ٹریل نہیں دی گئی۔ برطانیہ کی حکومت نے پاکستان حکومت سے رابطہ کیا اور رقم منتقلی کی بات کی۔ قومی خزانے کو 60 ارب کا ٹیکہ لگا کر 6 ارب کی پراپرٹی اپنے نام لگوائی گئی۔ اس کیس میں پراپرٹی ٹائیکون بھی مستفید ہوئے ہیں لیکن مرکزی ملزم عمران خان ہیں۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ القادرٹرسٹ کرپشن کے حوالے سے سارے انتقال اور رجسٹریوں کی کاپیاں موجود ہیں۔ عمران خان کے دور حکومت کے عہدیدار شہزاد اکبر نے 2 ارب روپے وصول کیے اور آج کل شہزاد اکبر دبئی اور لندن میں موجیں اڑا رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا ہے کہ قانون کے مطابق 60 ارب روپے قوم کی امانت تھی۔ وکلا نے قانونی عمل میں رکاوٹ بننے کی کوشش کی۔ فورسز نے بڑے بیلنسڈ اور بہتر انداز میں گرفتاری عمل میں لائی۔ جب نواز شریف کے خلاف جھوٹے مقدمات بنائے جا رہے تھے اسی وقت یہ چوری کر رہا تھا۔ توشہ خانہ کیس میں تحائف چوری کر کے بیچنے کے ثبوت موجود ہیں۔ قومی تحائف کو باہر لے جا کر اونے پونے داموں بیچا گیا۔

رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ تحفے بیچنے کی جعلی رسید بنائی گئی۔عمران خان کو شامل تفتیش ہونے کا کہا لیکن انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا تو گرفتاری عمل میں لائی گئی۔ عمران خان کے دور میں بے گناہ لوگوں کی پکڑ دھکڑ ہوتی رہی تھی۔ شہزاد اکبر پریس کانفرنس کر کے نام بتاتا تھا فلاں وزیر گرفتار ہو گا تو وہ ہو جاتا تھا۔ اس وقت کسی نے بھی سوموٹو ایکشن نہیں لیا۔

ایک سوال کے جواب میں وزیر داخلہ نے کہا کہ یہ کوئی انتقامی کارروائی نہیں ہے بلکہ ثابت شدہ کرپشن ہے۔ یہ کوئی انتقامی کارروائی نہیں، قانون کی حکمرانی اور میرٹ ہے۔

ایک صحافی کے سوال پر رانا ثنا اللہ نے کہا کہ حکومت کی طرف سے نیب کو کوئی ہدایات نہیں دی گئیں نیب آزاد ادارہ ہے۔ عمران خان کے لیے گھر کا کھانا پہنچائے جانے کے حوالے سے نیب فیصلہ کرے گا اور جہاں تک خوراک کی بات ہے تو اس حوالے سے عمران خان کو ری ہیبلیٹیشن سنٹر بھیجنا چاہیے۔