سپریم کورٹ کی حکومت اور پی ٹی آئی کو مذاکرات بحال کرنے کی تجویز

سپریم کورٹ کی حکومت اور پی ٹی آئی کو مذاکرات بحال کرنے کی تجویز
سپریم کورٹ نے حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کو مذاکرات بحال کرنے کی تجویز دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ امید کرتے ہیں مذاکرات دوبارہ شروع ہوں گے اور کوئی حل نکل آئے گا۔

سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے فیصلے پر نظرثانی درخواست پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے سماعت کی۔ جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر بنچ میں شامل ہیں۔ سیکرٹری سپریم کورٹ، پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر، الیکشن کمیشن کے وکیل اور اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔

4 اپریل کو اسی بینچ کی جانب سے الیکشن کمیشن کی جانب سے 8 اکتوبر کو انتخابات کروانے کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے 14 مئی کو الیکشن کروانے کا فیصلہ سنایا تھا۔

الیکشن کمیشن نے پنجاب اور خیبرپختونخوامیں انتخابات کی تاریخ سے متعلق سپریم کورٹ کے اختیارات کو چیلنج کردیا تھا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ درخواست قابل سماعت ہونے پر الیکشن کمیشن کا موقف سننا چاہتے ہیں۔صوبائی حکومتوں کو بھی نوٹس جاری کرکے سنیں گے۔دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی نوٹس جاری کریں گے۔

عدالت نے صوبائی حکومتوں،اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرل اوردیگر سیاسی جماعتوں کو نوٹسز جاری کر دیئے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دیں، آپ دلائل میں کتنا وقت لیں گے؟ وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ مجھے دو سے 3 دن درکار ہوں گے۔

چیف جسٹس عمرعطابندیال نے ریمارکس دیے کہ پہلے الیکشن کمیشن کا مؤقف تھا کہ وسائل دیں انتخابات کرادیں گے مگر اب الیکشن کمیشن نے نیا پنڈوراباکس کھول دیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے پہلے یہ مؤقف اپنایا ہی نہیں تھا۔ مناسب ہوگا یہ نکات کسی اور کو اٹھانے دیں۔ الیکشن کمیشن کی درخواست میں اچھے نکات ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ وفاقی حکومت یہ نکتہ اٹھاسکتی تھی لیکن نظرثانی دائرہی نہیں کی گئی۔ عدالتی دائرہ اختیارکا نکتہ بھی الیکشن کمیشن  نے نہیں اٹھایا تھا۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ نظرثانی درخواست میں نئے نکات نہیں اٹھائے جا سکتے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ بعض نکات غور طلب ہیں ان پر فیصلہ کریں گے۔ وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ نظرثانی کا دائرہ محدودنہیں ہوتا۔ آئینی مقدمات میں دائرہ اختیار محدود نہیں ہوسکتا۔  چیف جسٹس نے کہاکہ یہ بھی مدنظر رکھیں نظرثانی میں نئے نکات نہیں اٹھائے جاسکتے۔

وکیل پی ٹی آئی بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ 14 مئی گزر چکاہے آئین کا انتقال ہو چکا ہے۔نگران حکومتیں اب غیرآئینی ہوچکی ہیں۔عدالت اپنے فیصلے پر عمل کروائے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ وفاقی حکومت کو ان معاملات پر عدالت آنا چاہئے تھا لیکن وہ نہیں آئے۔ فیصلہ حتمی ہو جائے پھر عملدرآمد کرائیں گے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ آئین پر عملدرآمد میرا فرض ہے جو کرتا ہوں۔ باہر جو ماحول ہے اس میں آئین پر عملدرآمد کون کرائے گا؟ کسی ایک فریق کا اخلاقی معیار ہوتا تو دوسرے کو الزام دیتے۔ حکومت اور اپوزیشن سے کہتا ہوں اعلیٰ اخلاقی معیار کو تلاش کریں۔ فروری میں ایک فریق آئین کی خلاف ورزی کررہا تھا۔ اٹارنی جنرل صاحب مذاکرات بحال کیوں نہیں کرائے؟

وکیل علی ظفر نے کہا کہ مذاکراتی ٹیم کے 2 افراد گرفتار ہو چکے ہیں۔ پی ٹی آئی کی تمام قیادت گرفتار ہے۔ ایسے ماحول میں کیا مذاکرات ہو سکتے ہیں؟ اب مذاکرات نہیں صرف آئین پر عمل چاہیے۔

اٹارنی جنرل نے کہاکہ بہت کوشش کرکے فریقین کو میز پر لایا تھا۔فریقین میں کافی حد تک اتفاق رائے ہو چکا تھا۔کچھ وقت اور مل جاتا تو شاید مسئلہ حل ہو جاتا۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ گرفتاریاں جاری ہیں اور تاریخ پر اتفاق نہیں ہو سکا تھا۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ گزشتہ ہفتے جو ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔

وکیل علی ظفر نے کہاکہ عمران خان کو جس انداز میں گرفتار کیاگیااس سے خوف پھیلا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ عمران خان کو ریلیف مل چکا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ غلطی کی اصلاح عدالت کرچکی ہے۔ علی ظفر نے کہاکہ ایک ہفتے کا وقت بہت زیادہ ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات ہی بنیادی چیز ہیں۔ بال اب حکومت اور اپوزیشن کے کورٹ میں ہے۔ اگلے ہفتے تک تیاری کرکے آئیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کل ایک اور اہم معاملہ ہے۔ جلدی تب کرتے جب معلوم ہوتا الیکشن کا وقت آگیا ہے۔ جس انداز میں سیاسی قوتیں کام کررہی ہیں یہ درست نہیں۔ لوگ جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔لوگوں کی نجی اور سرکاری املاک کانقصان ہو رہا ہے۔ باہر جا کر دیکھیں کیا ہور ہاہے۔امن وامان کے ماحول کو برقرار رکھنے میں حصہ ڈالیں۔مشکل وقت میں صبر کرنا ہوتا نہ کہ جھگڑا۔ تین چار دن دیکھیں گے یہ کیا ہورہاہے۔ہم اپنا فرض ادا کرتے رہیں گے۔ اداروں کا احترام کرنا ہوگا۔ لوگ گولیوں سے زخمی ہوئے۔ اس مسئلے کو حل کیوں نہیں کیاگیا۔الیکشن جمہوریت کی بنیاد ہیں۔قانونی کی حکمرانی کے بغیر جمہوریت نہیں چل سکتی۔ سپریم کورٹ عوام کے حقوق کے دفاع کیلئے موجود ہے۔

سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوامیں انتخابات کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست پر صوبائی حکومتوں،اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرل اوردیگر سیاسی جماعتوں کو نوٹسز جاری کر دیئے جبکہ منگل تک اٹارنی جنرل سے بھی جواب مانگ لیا۔ مقدمے کی سماعت 23 مئی تک ملتوی کردی گئی۔