پاکستان کے ڈیفالٹ کا کوئی خطرہ نہیں: وزیر خزانہ اسحاق ڈار

پاکستان کے ڈیفالٹ کا کوئی خطرہ نہیں: وزیر خزانہ اسحاق ڈار
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ معاہدے کے لیے ہماری ٹیم نے کام مکمل کرلیا ہے۔ بدقسمتی سے معاہدے میں تاخیر ہوئی۔ ڈیفالٹ کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ 30جون تک آئی ایم ایف پروگرام ختم ہوجائےگا۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان چیلنجزسےگزر رہا ہے۔ 2013 میں بھی اسی طرح کے مشکل حالات تھے۔ پیش گوئی کی گئی تھی کہ پاکستان ڈیفالٹ کر جائے گا۔ کوئی ادارہ پاکستان کو قرض دینے کو تیار نہیں تھا۔لیکن اس کے بعد پاکستان بہت تیزی کے ساتھ اس صورتحال سے باہر نکلا۔ امید ہے کہ موجودہ صورتحال سے بھی جلد باہر نکل جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے حوالے سے بھی ہماری ٹیم نے نویں جائزے کے لیے اپنا ٹیکنیکل کام پورا کرلیا ہے۔ بد قسمتی یہ ہے کہ یہ جائزہ تین ماہ کی تاخیر سے شروع ہوا۔ ہم تمام پیشگی اقدامات مکمل کرچکے ہیں۔ یہ تمام پیشگی اقدامات بورڈ میٹنگ سے پہلے ہوتے ہیں۔ اسٹاف لیول ایگریمنٹ سے پہلے نہیں ہوتے۔ اس آئی ایم ایف جائزے کو بہت پہلے ہوجانا چاہیے تھا جس سے ہمارے بیرونی اکاؤنٹ کی صورتحال کافی بہتر ہوتی۔ اس میں کچھ اسٹرکچرل قسم کی تاخیر ہے جو کہ بڑی بد قسمتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ جب ہم نے دسمبر کی سہہ ماہی کی کلوزنگ کی تو ہمارے بیرونی اکاؤنٹ میں 4 ملین ڈالر کمی آئی۔ یہ بہت غیرمعمولی بات تھی جب کہ کسی بھی ملک کے بیرونی اکاؤنٹ میں اس طرح سے کمی نہیں آتی بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کا تخمینہ کچھ خاص کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی بنیاد پر تھا لیکن ہمیں دیوالیہ ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس سے قبل 2013 میں مسلم لیگ ن کی حکومت میں پاکستان نے آئی ایم ایف کا ایک پروگرام مکمل کیا تھا اور ہماری کوشش تھی اور ہے کہ دوسرا پروگرام جو جون میں مکمل ہونا ہے اس کو مکمل کریں۔

اسحاق ڈار نے ایف بی آئی حکام نے کہا کہ آپ ہمیں ریونیو کلیکشن اور بجٹ میں بہتری کے حوالے سے تجاویز دیں۔ ان تجاویز میں جو بھی تجویز قابل عمل ہوگی۔ اس پر ہماری طرف سے کوئی مزاحمت نہیں ہوگی کیونکہ ہم سب نے مل کر ملک کو اس بھنور سے نکالنا ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم نے ساڑھے پانچ ملین ڈالر ہم نے کمرشل بینکوں کو قرضوں کی ادائیگی کی ہے۔جب چینی بینکوں نے دیکھا کہ انہوں نے تمام پیشگی اقدامات کرلیے۔ سارا ٹیکنیکل کام ہوگئی، مدت کا کام ہفتوں میں کرکے ادائیگیاں کردیں تو انہوں نے ہمیں 2 ملین ڈالر قرض رول اوور کرکے واپس کیا۔ باقی ساڑھے 3 ملین ڈالرز دوسرے بینکوں کے ساتھ ہے۔ جب بورڈ میٹنگ ہوجائے تو پھر اس سے کافی سہولت حاصل ہوگی۔

یہ بات یہاں قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل بھی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان نے پہلے ہی آئی ایم ایف کے ساتھ نویں جائزے کیلیے تمام پیشگی اقدامات کی تعمیل کر لی ہے۔ توقع تھی کہ آئی ایم ایف کے ساتھ سٹاف لیول معاہدے پر جلد دستخط کیے جائیں گے جس کے بعد آئی ایم ایف بورڈ کی جانب سے 9 ویں جائزے کی منظوری دی جائے گی۔ تاہم آئی ایم ایف کے مشن چیف ناتھن پورٹر کے بیان نے اس بات کی نفی کر دی تھی۔   ناتھن پورٹر نے کہا تھا کہ پاکستانی حکام کے ساتھ ضروری فنانسنگ اور 9ویں جائزے کی تکیمیل کیلیے کام جاری رکھے ہوئے ہیں تاکہ حتمی معاہدے انجام پا سکے۔

واضح  رہے کہ جون میں نویں جائزے کے اختتام کے بعد آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کو 1.4 ارب ڈالر کی قسط جاری کی جائے گی۔ پاکستان اور آئی ایم ایف فروری سے زیر جائزہ مالیاتی پالیسی کے اقدامات پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں تاکہ تاخیر کا شکار پروگرام کو دوبارہ شروع کیا جا سکے۔

پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان نومبر 2019 میں 6.5 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کا معاہدہ طے پایا تھا۔