پنجاب انتخابات کیس: حکومت کا مسئلہ تو نئے قانون سے حل ہوگیا، چیف جسٹس کے ریمارکس

پنجاب انتخابات کیس: حکومت کا مسئلہ تو نئے قانون سے حل ہوگیا، چیف جسٹس کے ریمارکس
پنجاب انتخابات سے متعلق الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست پر سماعت شروع ہوتے ہی ملتوی کردی گئی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ دلچسپ معاملہ ہے۔ حکومت کا مسئلہ تو 'سپریم کورٹ ریویو ایکٹ' کے قانون بننے سے حل ہوگیا۔

سپریم کورٹ میں پنجاب انتخابات پر الیکشن کمیشن کی نظر ثانی درخواست پر سماعت شروع ہوئی۔ چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بنچ کا حصہ ہیں۔

سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل روسٹرم پر آگئے اور عدالت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ میں کچھ بات کرنا چاہتا ہوں صدرمملکت کی منظوری کے بعد نظرثانی قانون بن چکا ہے۔ نظرثانی کے قوانین کا اطلاق جمعہ سے ہوچکا ہے۔

اس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ نظرثانی قانون سے متعلق سن کر وکیل الیکشن کمیشن کے چہرے پرمسکراہٹ آئی۔

اٹارنی جنرل نے بینچ پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ ریویو ایکٹ اب قانون بن چکا ہے. نئے ایکٹ کےتحت نظر ثانی کا دائرہ کار اب اپیل جیسا ہی ہوگا، اب نظرثانی کو فیصلہ دینے والے بینچ سے لارجر بینچ ہی سن سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جمعرات کو جوڈیشل کمیشن والا کیس مقرر ہے. آپ اس بارے حکومت سے ہدایات لے لیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ نیا قانون آچکا ہے ہم بات سمجھ رہے ہیں۔ آج سماعت ملتوی کر دیتے ہیں۔ تحریک انصاف کو بھی قانون سازی کا علم ہوجائے گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی اصلاحات بل والا کیس جمعرات کو سماعت کیلئے مقرر ہے اس پر بھی ہدایات لے لیں۔ یہ عدالت عدلیہ کی آزادی کے قانون کو لاگو کرتی ہے۔ لگتا ہے حکومت نے سمجھ لیا ہے کہ عدالتی اصلاحات قانون ختم ہو جائے گا۔ یہ دلچسپ معاملہ ہے. حکومت کا مسئلہ تو نئے قانون سے حل ہوگیا ہے۔ آرٹیکل 184/3 کے فیصلوں پر ٹھوس نظرثانی ہونی چاہیے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ جج کی جانبداری کا بھی معاملہ اٹھایا گیا ہے۔ دوسری جانب سے کون آیا ہے۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر آج نظر نہیں آئے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ نے علی ظفر کو کچھ برا کہا ہے؟ میں نے بیرسٹر علی ظفر کو کچھ نہیں کہا۔ اس کیس کوفی الحال ملتوی کررہے ہیں۔

سپریم کورٹ نے سماعت غیرمعینہ مدت تک ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ23 مارچ کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 30 اپریل بروز اتوار کو شیڈول پنجاب اسمبلی کے عام انتخابات کو ملتوی کردیا تھا۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات 8 اکتوبر کو ہوں گے۔ آئین کے تحت حاصل اختیارات استعمال کرتے ہوئے انتخابی شیڈول واپس لیا گیا اور نیا شیڈول بعد میں جاری کیا جائے گا۔

25 مارچ کو پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب اسمبلی کے انتخابات ملتوی کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی تھی۔

جس پر 4 اپریل کو سماعت کرتے ہوئے عدالت نے فیصلے میں کہا تھا کہ الیکشن کمیشن 90 دن سے آگے نہیں جاسکتا۔ الیکشن کمیشن کے غیر قانونی فیصلے سے 13 دن ضائع ہوئے۔ آئین اور قانون الیکشن کمیشن کو تاریخ میں توسیع کی اجازت نہیں دیتا۔ الیکشن کمیشن نے انتخابات کی 8 اکتوبر کی تاریخ دے کر دائرہ اختیار سے تجاوز کیا۔

سپریم کورٹ نے 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا۔  تاہم ڈیڈ لائن گزرنے کے باوجود عدالتی حکم پر عملدرآمد نہ ہوسکا اور عدالتی حکم پر وفاق اور الیکشن کمیشن عملدرآمد نہ کرسکے۔

3 مئی کو الیکشن کمیشن نے عدالتی فیصلے پر نظر ثانی درخواست دائرکی تھی۔الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے انتخابات میں تاریخ دینے پر اعتراض اٹھایا تھا اور مؤقف پیش کیا تھا کہ الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس نہیں ہے۔