عدالتی اصلاحات بل اور آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے خلاف درخواستیں سماعت کے لیے مقرر

عدالتی اصلاحات بل اور آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے خلاف درخواستیں سماعت کے لیے مقرر
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل اور آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے خلاف درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کر لی گئیں۔

سپریم کورٹ آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے خلاف 31 مئی کو سماعت کرے گا جبکہ 5 رکنی لارجر بینچ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں مقدمے کی سماعت کرے گا۔ بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید شامل ہیں۔

سپریم کورٹ نے گزشتہ سماعت میں آڈیو لیکس کمیشن کا وفاقی حکومت کا نوٹیفکیشن معطل کردیا تھا اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بننے والے جوڈیشل کمیشن کو مزید کارروائی سے روک دیا تھا۔

سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجز بینچ نے کیس کی سماعت کی تھی اور 8 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا تھا۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کی سماعت  یکم جون کو  چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 8 رکنی لارجر بینچ کرے گا۔

اس ضمن میں سپریم کورٹ کی جانب سے فریقین کو نوٹسز جاری کر دیے گئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے 8 مئی کو کیس کی سماعت تین ہفتوں کے لیے ملتوی کیا تھا۔

دوسری جانب حکومت نے سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈر ایکٹ 2023 کے نفاذ کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ صدر کی جانب سے دستخط کرنے کے بعد سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ 2023 قانون بن گیا۔ اٹارنی جنرل نے ریویو آف ججمنٹ ایکٹ 2023 کی کاپی اور نوٹیفکیشن سپریم کورٹ میں جمع کروایا۔

نئے قانون کا نفاذ جمعہ سے ہو چکا ہے۔ اس قانون کے بعد آرٹیکل 184 کے تحت مقدمات کی نظرثانی درخواستوں میں سپریم کورٹ اپیل کی طرز پر سماعت کرے گی جبکہ نواز شریف اور جہانگیر ترین کو بھی 60 دن کے اندر اپنی سزا کے خلاف اپیل دائر کرنے کا موقع مل گیا ہے۔

ایکٹ کے تحت 184(3) کے فیصلے کے خلاف 60 روز کے اندر اپیل دائر کی جا سکے گی۔ اس کا دائر کار قانون بننے سے پہلے کے فیصلوں، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے رولز پر بھی ہوگا۔ ایکٹ کے تحت نظرثانی درخواست کی سماعت لارجر بنچ کرے گا۔ لارجر بنچ میں ججز کی تعداد مرکزی کیس کا فیصلہ سنانے والے ججز سے زیادہ ہو گی۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 13 اپریل کو ابتدائی سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے 8 صفحات پرمبنی حکمنامہ جاری کیا تھا جس کے مطابق بل پرصدر دستخط کریں یا نہ کریں دونوں صورتوں میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل پر عملدرآمد نہیں ہوگا۔ تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ عدالت کسی قانون کو معطل نہیں کرسکتی، بادی النظرمیں بل کے ذریعے عدلیہ کی آزادی میں مداخلت کی گئی۔