'عمران خان پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو قبول ہے اور نا ہی امریکہ کو'

'عمران خان پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو قبول ہے اور نا ہی امریکہ کو'
بائیڈن انتظامیہ اور امریکہ واضح طور پر عمران خان کو پسند نہیں کرتے۔ انہیں اندازہ ہے اس وقت پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے عمران خان اپنے ذاتی مفاد کے لئے اسے اور رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان میں انسانی حقوق کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہو رہی۔ عمران خان اب پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو قبول ہے اور نا ہی امریکہ کو۔ یہ کہنا ہے صحافی علی جہانزیب کا۔

نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبرسےآگے' میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکہ کے مفادات پاکستان کی فوج کے ساتھ جڑے ہیں۔ فوج کے خلاف پی ٹی آئی امریکہ میں جتنی بھی مہم چلا لے امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو حقائق کا علم ہے، انہیں بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا۔ اب امریکہ میں مقیم پاکستانی بھی چپ کر کے بیٹھ گئے ہیں کیونکہ انہیں پتہ چل چکا ہے کہ پاکستانی فوج کسی کو نہیں چھوڑے گی۔ پاک فوج کے خلاف امریکہ میں نعرے لگانے والوں کا ڈیٹا پاکستان بھیج دیا گیا ہے۔

صحافی انور اقبال کا کہنا تھا کہ امریکہ کی جانب سے فوجی امداد والی بات کو پی ٹی آئی غلط رنگ دے رہی ہے۔ امریکی کانگریس میں یہ تحریک صرف پاکستان کے لئے نہیں لائی گئی بلکہ عمومی طور پر دنیا کے تمام ایسے ملکوں کے لئے ہے جہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ پی ٹی آئی کی تحریک سطحی ہے اس میں گہرائی نہیں ہے، یہ وقتی ابال ہے جو آرام سے ختم ہو جائے گا۔ عمران خان نے جس طرح کی سیاست شروع کر رکھی تھی اس کا نتیجہ یہی نکلنا تھا۔

صحافی واجد علی سید نے کہا کہ پی ٹی آئی جس طرح امریکہ میں لابنگ کر رہی ہے پاکستان کی کوئی اور سیاسی جماعت کبھی یہ نہیں کر سکی۔ جن امریکی لوگوں سے پی ٹی آئی کے لوگ مل رہے ہیں ان کے بیانات کو وہ بعد میں ٹوئسٹ کر کے استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان کے لئے امریکی فوجی امداد پہلے سے ہی بند ہے، پی ٹی آئی اسے اب کیسے بند کروا سکتی ہے؟

پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ 'خبرسےآگے' ہر پیر سے ہفتے کی شب 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے پیش کیا جاتا ہے۔