'طبقہ اشرافیہ کی حکومت بجٹ میں انقلابی تبدیلیاں نہیں لا سکتی'

'طبقہ اشرافیہ کی حکومت بجٹ میں انقلابی تبدیلیاں نہیں لا سکتی'
بجٹ میں تمام اعداد و شمار اندازے کی بنیاد پر شامل کیے جاتے ہیں۔ ان کا انحصار اس بات پر ہے کہ اگلے سال معیشت 3.5 فیصد کی شرح نمو سے آگے بڑھے۔ معیشت زیادہ سے زیادہ 1 سے 2 فیصد کے حساب سے نمو پائے گی جس کا مطلب ہے خسارے میں مزید اضافہ ہو گا۔ طبقہ اشرافیہ کی حکومت سے یہ توقع کرنا کہ بجٹ میں کوئی انقلابی تبدیلیاں لے آئے گی تو یہ نہیں ہو سکتا۔ اتحادی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے پاس ملک کو موجودہ معاشی بحران سے نکالنے کی کوئی حکمت عملی موجود نہیں۔ یہ کہنا ہے معاشی تجزیہ کار فہد علی کا۔

نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبرسےآگے' میں گفتگو کرتے ہوئے عزیر یونس کا کہنا تھا کہ حالیہ بجٹ کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ پاکستان جس کرائسز میں ہے حکمران طبقے کو اس بحران کا ادراک ہی نہیں ہے۔ پاکستان میں طبقہ اشرافیہ نے پولیٹیکل اکانومی پر قبضہ کر رکھا ہے۔ اس ملک کے کرتا دھرتا ایک مہینے میں ہزاروں لوگوں کو پکڑ کر جیلوں میں تو ڈال سکتے ہیں مگر ریئل سٹیٹ ڈیلرز اور سمگلرز پہ ہاتھ نہیں ڈال رہے کیونکہ ڈالنا ہی نہیں چاہتے۔

ڈاکٹر اقدس افضل نے کہا کہ مجموعی طور پر نیا بجٹ بہت سختی سے کنٹرول کیا گیا ہے۔ حکومت کوشش کر رہی ہے کہ آئی ایم ایف کا پروگرام لے لیا جائے اور بجٹ کو بھی آئی ایم ایف کے مطابق ہی تیار کیا گیا ہے۔ جن حالات میں حکومت نے بجٹ پیش کیا ہے اس سے بہت زیادہ توقع رکھنا درست نہیں کیونکہ ابھی موجودہ حکومت کی پوری توجہ کچھ نہ کچھ استحکام لانے پر ہے۔

ڈاکٹر خاقان نجیب نے کہا کہ حکومت ٹیکس زیادہ نہیں اکٹھی کرے گی تو ترقیاتی کاموں، تنخواہوں، پنشنز اور بینظیر انکم سپورٹ جیسے پروگراموں کے لئے پیسے ادھار لے کر دینے پڑیں گے۔ گریڈ 1 سے 16 کی تنخواہیں بڑھنی چاہئیں تاہم گریڈ 17 سے اوپر والوں کو حالات کے تحت قربانی دینی چاہئیے۔ آئی ٹی، زراعت اور خواتین کی ترقی کے لئے پیسے رکھے گئے ہیں جو بہت خوش آئند بات ہے۔

پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ 'خبرسےآگے' ہر پیر سے ہفتے کی شب 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے پیش کیا جاتا ہے۔