چوہدری شوگر ملز کیس میں نواز شریف کی ضمانت، لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے 5 اہم نکات

چوہدری شوگر ملز کیس میں نواز شریف کی ضمانت، لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے 5 اہم نکات
گذشتہ روز لاہور ہائیکورٹ نے سابق وزیراعلی پنجاب شہباز شریف کی درخواست پر چوہدری شوگر ملز کیس میں نوازشریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت منظور کی تھی۔

سابق وزیراعلی پنجاب شہباز شریف نے 24 اکتوبر کو لاہور ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی، جس میں چوہدری شوگر ملز کیس میں نواز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت کی استدعا کی گئی تھی۔ بعد ازاں 25 اکتوبر کو لاہور ہائی کورٹ نے چوہدری شوگر ملز کیس میں نواز شریف کی طبی بنیادوں پر درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں ایک کروڑ روپے کے 2 ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔



اس ضمانت کے فیصلے میں لاہور ہائی کورٹ نے جو لکھا اس کے 5 اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں:

نواز شریف کو لاحق بیماریوں کی تفصیل

فیصلے میں لکھا ہے کہ سروسز ہسپتال کے خصوصی میڈیکل بورڈ نے بتایا ہے کہ نواز شریف کو بیک وقت متعدد بیماریوں کا سامنا ہے۔ جن میں ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر، گردوں اور دل کی بیماری شامل ہے۔ بورڈ نے کہا کہ پلیٹلیٹس کی کم تعداد نے ان بیماریوں کی نوعیت کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔

سب اہم بات یہ کہ نواز شریف کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ 2003 سے لے کر 2017 کے درمیان سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف دل کی مختلف بیماریوں کا 8 مرتبہ علاج کروا چکے ہیں، جس میں 2011 میں کی گئی ایک اوپن ہارٹ سرجری بھی شامل ہے۔

نوازشریف کی صحت کی تازہ صورتحال

21 اکتوبر کو نواز شریف کی صحت اچانک خراب ہونے پر انہیں لاہور کے سروسز ہسپتال منتقل کیا گیا۔ جہاں پلیٹلیٹس خطرناک حد تک کم ہونے کی تشخیص کی گئی۔ تاہم، سابق وزیراعظم کو انجائنہ کی تکلیف کا بھی سامنا ہے۔ عدالت نے رپورٹس کی روشنی میں نوٹ کیا کہ درخواست گزار کی حالت سنگین اور غیر یقینی ہے، اور اس کے پلیٹلیٹ کی تعداد میں بھی کوئی بہتری نہیں آ رہی ہے۔

درخواست گزار ایک سینئر اور بیمار شہری ہے جو جسمانی طور پر معذور ہے۔

مزید کہا گیا کہ میڈیکل رپورٹس کے مطابق بیماری کی نوعیت سنگین ہے، لہذا درخواست گزار کو دباؤ سے پاک اور پورے ذہنی سکون کے ساتھ سازگار ماحول میں علاج کی ضرورت ہے۔

متعدد بیماریوں کا علاج

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ بیماریوں کا علاج جیل میں نہیں ہوسکتا، کیونکہ درخواست گزار متعدد دائمی بیماریوں میں مبتلا ہے۔ فیصلے میں لکھا تھا کہ اس صورتحال نے عدالت کو مصحفی کا شعر یاد کروا دیا ہے۔

مصحفی ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہو گا کوئی زخم

پر تیرے دل میں بہت کام رفو کا نکلا

آئین کے آرٹیکل 9 کا اطلاق

فیصلے میں لکھا ہے کہ درخواست گزار کی طبی حالت پر غور کرتے ہوئے عدالت نے مشاہدہ کیا ہے کہ درخواست گزار کو جیل سے باہر علاج کروانے کی ضرورت ہے۔ عدالت نے آئین کے آرٹیکل 9 کی روشنی میں یہ فیصلہ کیا۔ جس کے مطابق ہر شخص کو زندگی اور آزادی سے جینے کا قانونی حق حاصل ہے۔

شرجیل میمن کیس کا حوالہ

عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ زیر سماعت مقدمے میں قیدی کو صحت کے نقصانات سے بچنے کے لئے اپنی مرضی کے کسی ہسپتال یا اپنی پسند کے ملک میں طبی سہولیات حاصل کرنے کی اجازت دی جانی چاہئے۔ اس ضمن میں عدالت نے شرجیل میمن بمقابلہ قومی احتساب کیس کا حوالہ بھی دیا۔ مذکورہ مقدمے کی میں درخواست گزار کو طبی بنیادوں پر گرفتاری کے بعد ضمانت دی گئی تھی۔