توہین مذہب کیس: عدالت نے اسکالر جنید حفیظ کو سزائے موت سنا دی

ملتان کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے توہین مذہب کے الزام میں گرفتار بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی کے سابق لیکچرار جنید حفیظ کو سزائے موت سنا دی۔

فیصلہ ملتان کی سینٹرل جیل میں سنایا گیا جس کے مطابق جنید حفیظ پر توہین مذہب کے الزامات ثابت ہو چکے ہیں۔ لہذا، دفعہ 295 سی کے تحت انہیں سزائے موت سنائی جاتی ہے۔

فیصلے میں جنید حفیظ کو توہین مذہب کی دفعہ 295 بی کے تحت عمر قید، ایک لاکھ روپے جرمانہ اور 295 اے کے تحت 5 لاکھ جرمانہ اور 10 سال قید کی سزا بھی سنائی گئی۔

جنید حفیظ کو مارچ 2013 میں سوشل میڈیا پر توہین آمیز پوسٹ کے الزام پر لاہور سے گرفتار کیا گیا تھا۔



راجن پور سے تعلق رکھنے والے جنید حفیظ کے والد حفیظ النصیر نے کچھ عرصہ قبل وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا وہ پراعتماد ہیں کہ انہیں انصاف ملے گا۔

ان کا خیال تھا کہ اب تک جتنی سماعتیں ہو چکی ہے اور جو گواہ پیش ہو چکے ہیں اور وکلا جس طرح کی جرح کر چکے ہیں، اس سے ہمیں لگتا ہے کہ میرے بیٹے جنید پر لگے الزامات جھوٹے ثابت ہوں گے۔

حفیظ النصیر کا کہنا تھا کہ انشااللہ ہمیں امید ہے کہ اسی کورٹ سے ہمیں بریت ملے گی اور میرا بیٹا جنید رہا ہو گا۔

 

جنید حفیظ کا معاملہ ہے کیا؟

جنید حفیظ کا تعلق پنجاب کے شہر راجن پور سے ہے۔ وہ 2010 میں امریکہ کی جیکسن اسٹیٹ یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بڑے شوق سے واپس پاکستان آئے تھے۔ جنید حفیظ پر ملتان کے تھانہ الپا کے ایس ایچ او کی مدعیت میں توہین مذہب کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

یہ کیس اس وقت شہ سرخیوں میں آیا، جب مدثر نامی وکیل نے یہ کیس لڑنے کا فیصلہ کیا اور پہلے ہی دن وکیلوں کے ایک گروہ نے یہ کیس لینے پر مدثر کو ہراساں کیا۔

بعدازاں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی طرف سے یہ کیس ملتان میں راشد رحمان کو ریفر کیا گیا۔ راشد رحمان اس کیس سے پہلے ملتان میں ہی درج ہونے والے توہین مذہب کیس میں پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان کا بھی دفاع کرچکے تھے جس پر انہیں تشدد کا بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔

توہین مذہب کیس میں جنید حفیظ کا دفاع کرنے پر ایڈووکیٹ راشد رحمان کو متعدد بار قتل کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ جس کے باوجود راشد رحمان نے یہ کیس چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ 7 مئی 2014 کو راشد رحمان کو دو مسلح افراد نے ان کے دفتر میں گھس کر قتل کر دیا تھا۔

6 سال سے قید جنید حفیظ نے انٹرمیڈیٹ میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔ جس کے بعد انہوں نے میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے لاہور کے کنگ ایڈوڑ میڈیکل کالج میں داخلہ لیا۔ میڈیکل کی تعلیم ادھوری چھوڑنے کے بعد جنید حفیظ نے انگریزی ادب میں ماسٹرز کے لیے ملتان کی بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ جس کے دوران جنید حفیظ بطور فل برائٹ اسکالر امریکی ادب میں ماسٹرز کرنے امریکہ کی جیکسن اسٹیٹ یونیورسٹی چلے گئے۔

اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد جنید حفیظ نے شعبہ تدریس سے وابستہ ہونے کے لیے ملتان کی بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی کو ہی منتخب کیا۔

جنید حفیظ کے وکیل کا کہنا ہے کہ جنید حفیظ بطور وزیٹنگ لیکچرار بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی میں تعینات تھے اور انہی دنوں یونیورسٹی میں سینڈیکیٹ انتخابات آ گئے۔ ان انتخابات میں جنید حفیظ نے شعبہ انگریزی کی سربراہ پروفیسر ڈاکٹر شیریں زبیر کی حمایت کی جبکہ مخالف دھڑے کا تعلق ایک مذہبی تنظیم سے تھا۔

جنید حفیظ کے وکیل کا مزید کہنا ہے کہ انتخابات کے دوران ہی یونیورسٹی میں مستقل لیکچرار کے لئے آسامی نکل آئی۔ جس کے لیے جنید بھی امیدوار تھا۔ اسی آسامی کے لیے مذہبی گروہ سے تعلق رکھنے والے ایک امیدوار بھی تھے۔

جنید حفیظ کے وکیل کے مطابق اس مخالفت کے سبب جنید حفیظ پر توہین مذہب کا جھوٹا الزام لگایا گیا کہ انہوں نے اپنے فیس بک پیج پر مبینہ طور پر توہین آمیز مواد شائع کیا ہے۔ اس الزام کے بعد تھانہ ایس ایچ او الپا، نیاز احمد کی مدعیت میں جنید حفیظ کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ درج کر لیا گیا۔

امریکا کی جیکسن اسٹیٹ یونیورسٹی میں پاکستان کے جنید حفیظ کا نام شاید آج بھی دنیا کے مایہ ناز اسکالروں کی فہرست میں آویزاں ہو لیکن سینٹرل جیل ملتان کی کال کوٹھڑی میں تنہا بیٹھا وہ لیکچرار دن گن رہا ہے کہ  کب یہ تاریک رات  ختم ہوگی اور اسے بھی انصاف ملے گا۔