آرمی ایکٹ پر قانون سازی: کون کون سی سیاسی جماعت نے لاتعلق رہنے کا اعلان کیا؟

آرمی ایکٹ پر قانون سازی: کون کون سی سیاسی جماعت نے لاتعلق رہنے کا اعلان کیا؟
ملکی سیاسی محاذ پر اس وقت آرمی ایکٹ میں ترمیم کا معاملہ زیر نظر ہے۔ اس اہم اور حساس معاملے پر جہاں ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں، حکومت اور اپوزیشن کی تفریق کے بغیر ایک صفحے پر ہیں، وہیں چند سیاسی جماعتوں نے اس نئی قانون سازی سے اظہار لاتعلقی کا اعلان کر دیا ہے۔

آرمی ایکٹ کے معاملے پر جہاں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف اور اس کے اتحادی، اور اپویشن جماعتیں پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی ایک صفحے پر ہیں تو دوسری طرف جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام (ف)، نیشنل پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی نے آرمی ایکٹ پر قانون سازی سے لاتعلق رہنے کا اعلان کر دیا ہے۔

امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ جماعت اسلامی آرمی ایکٹ میں حکومت کا نہیں اصولوں کا ساتھ دے گی، حکومتیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ وزیراعظم کسی بھی وقت پسند اور ناپسند کی بنیاد پر فیصلہ کرے گا جس کی بنیاد پر ادارے کمزور ہوں گے۔

سراج الحق کا کہنا تھا کہ ہر قانون میں ذات اور پارٹی مفادت کے بجائے عوام اور ملک کے مفاد کو ترجیح دینی چاہیے، پڑوس میں ہم سے 8 گنا بڑی طاقت ہے، اگرملک میں دو نظام بنائے تو فائدہ نہیں ہو گا، 64 سال ریٹائرمنٹ کی معیاد سب کیلئے بنائی جائے۔

مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ (ن) لیگ کا فرض تھا تمام جماعتوں کو اکٹھا کرتی، لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں کیا جا سکا، جے یو آئی (ف) اس قانون سازی سے لاتعلق رہے گی، ووٹنگ میں حصہ لینا جعلی اسمبلی کی کارروائی کا حصہ بننا ہو گا، فوج کا ادارہ اور اس کا سربراہ غیر متنازع ہیں، وزیراعظم کسی بھی وقت پسند اور ناپسند کی بنیاد پر فیصلہ کرے گا جس کی بنیاد پر ادارے کمزور ہوں گے۔

علاوہ ازیں جمعہ کو پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر عثمان خان کاکڑ اور نیشنل پارٹی کے سربراہ سینیٹر میر حاصل بزنجو نے پارلیمنٹ ہاؤس میں مشترکہ پریس کانفرنس کی۔

میر حاصل بزنجو نے کہا کہ ہم نے پوری تاریخ نکالی، دنیا میں جنگیں ہوئیں پر کبھی کسی آرمی چیف کو توسیع نہیں ملی۔ پارلیمنٹ، نیشنل اسمبلی اور سینیٹ کے ساتھ اس سے بڑی ذیادتی نہیں ہو سکتی، ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی اس قانونی جرم کا حصہ نہیں بنے گی۔

اس موقع پر سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ ہم مسلسل کہے رہے تھے یہ ایک کنٹرول جمہوریت ہے، میڈیا پہ پابندی ہے، الیکشن کمیشن کے خلاف اقدامات ہو رہے ہیں، 8 گھنٹے کے نوٹس پہ اجلاس بلا رہے ہیں، دونوں ایوانوں میں اس بل کی مخالفت کریں گے۔