اکتوبر میں ہونے والا ٹرین حادثہ گیس سلنڈر پھٹنے سے نہیں بلکہ شارٹ سرکٹ کی وجہ سے ہوا، انکوئری رپورٹ میں انکشاف

اکتوبر میں ہونے والا ٹرین حادثہ گیس سلنڈر پھٹنے سے نہیں بلکہ شارٹ سرکٹ کی وجہ سے ہوا، انکوئری رپورٹ میں انکشاف
تیزگام حادثے کی انکوائری رپورٹ نے وزیر ریلوے شیخ رشید کے بیان کی نفی کر دی۔ اکتوبر میں ہونے والا حادثہ گیس سلنڈر پھٹنے سے نہیں بلکہ شارٹ سرکٹ کی وجہ سے ہوا، ٹرین حادثے کی انکوائری رپورٹ میں حقائق سامنے آگئے۔

سابق فیڈرل گورنمنٹ انسپیکٹر آف ریلویز دوست علی لغاری کی جانب سے ٹرین حادثے کی انکوائری رپورٹ مرتب کر لی گئی ہے۔ انکوائری رپورٹ کے مطابق ٹرین میں آگ کچن پورشن میں الیکٹریکل کیٹل کی ناقص وائرنگ میں شارٹ سرکٹ کی وجہ سے لگی۔ 12 نمبر بوگی میں الیکٹرک سپلائی بوگی نمبر 11 سے غیر قانونی طریقے سے لی گئی تھی۔ تار میں ناقص جوڑ اور ہیٹ اپ ہونے کی وجہ سے شارٹ سرکٹ ہوا، شارٹ سرکٹ ہونے سے دروازے کے پاس پڑے مسافروں کے سامان میں آگ لگی۔

انکوائری رپورٹ مین کہا گیا ہے کہ وائرنگ متاثر ہونے سے پوری بوگی میں شدید دھواں بڑھ گیا۔ آگ نے بوگی نمبر 12 کی تمام وائرنگ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جبکہ بوگی میں مسافروں کے سامان کے ساتھ گیس سلنڈر بھی موجود تھا۔ ٹرین میں آگ بجھانے والی آلات کی کمی کے باعث موقع پر قابو نہ پایا جا سکا۔

سانحہ تیزگام میں ڈپٹی ڈی ایس، کمرشل آفیسر، ایس ایچ او، ڈائننگ کار کے ٹھیکیدار، ویٹرز، ہیڈ کانسپٹیبل، کانسٹیبل، ریزرویشن اسٹاف ذمہ دار قرار دئیے گئے ہیں۔ ذمہ داروں میں ڈائننگ کار کے مینجر محمد آصف، ویٹر عبدالستار، افتخار احمد، ہیڈکانسٹیبل علی جان، محمد نسیم، کانسٹیبل محمد ارشد، جہانگیر حسین، ریزرویشن اسٹاف عامر حسین، ڈپٹی ڈی ایس کراچی جمشید عالم، ڈویژنل کمرشل آفیسر جنید اسلم، ریزرویشن کلرک محمد ندیم، کلیم انسپیکٹر قمر شاہ، ایس ایچ او حیدر آباد طارق علی لغاری اور ایس ایچ او خانپور امداد علی شامل ہیں۔
انکوائری رپورٹ میں لکھے گئے ذمہ داروں کو پہلے ہی عہدے سے ہٹایا جا چکا ہے جبکہ ڈپٹی ڈی ایس کراچی جمشید عالم کو آج نوکری سے برخاست کیا گیا۔ سیکرٹری ریلوے حبیب الرحمن گیلانی نے انکوائری رپورٹ کی منظوری دے دی ہے۔ واضح رہے ٹرین حادثے میں 75 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔

اس سے قبل ریلوے خسارہ کیس کی سماعت کے دوران وفاقی وزیرِ ریلوے شیخ رشید احمد سپریم کورٹ آف پاکستان میں پیش ہو گئے۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ وزیرِ ریلوے کے وکیل نے سماعت کے موقع پر عدالت کو بتایا کہ عدالتی حکم پر وزیرِ ریلوے عدالت میں پیش ہیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ وزیر صاحب بتائیں کیا پیش رفت ہے؟ آپ کا سارا کٹا چٹھا تو ہمارے سامنے ہے۔

چیف جسٹس نے شیخ رشید سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ریل میں 70 افراد کے جلنے کے واقعے پر تو آپ کو استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے سوال کیا کہ 70 لوگ جل گئے بتائیں کیا کارروائی ہوئی؟ شیخ رشید نے جواب دیا کہ 19 لوگوں کے خلاف کارروائی کی ہے۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے سوال کیا کہ گیٹ کیپر اور ڈرائیورز کو نکالا، بڑوں کو کیوں نہیں نکالا؟

شیخ رشید نے جواب دیا کہ بڑوں کے خلاف بھی کارروائی ہو گی۔ چیف جسٹس نے شیخ رشید سے کہا کہ بتا دیں 70 آدمیوں کے مرنے کا حساب آپ سے کیوں نہ لیا جائے، سب سے بڑے تو آپ خود ہیں؟

انہوں نے کہا کہ میرے خیال سے ریلوے کو آپ بند ہی کر دیں، جیسے ریلوے کا ادارہ چلایا جا رہا ہے ہمیں ایسے ریلوے کی ضرورت نہیں۔ سپریم کورٹ نے شیخ رشید سے ریلوے کو منافع بخش ادارہ بنانے کے لیے پلان طلب کر لیا اور کہا کہ سرکلر ریلوے ٹریک کی بحالی کے لیے مزید وقت نہیں دیا جائے گا۔

عدالتِ عظمیٰ نے حکم دیا کہ 2 ہفتوں میں ریلوے سے متعلق جامع پلان پیش کریں۔ سپریم کورٹ نے ایم ایل 1 کی منظوری نہ ہونے پر وفاقی وزیر اسد عمر کو بھی آئندہ سماعت پر بلا لیا۔