عورت مارچ کے لیے سخت شرائط کے تحت اجازت نامہ جاری، خلاف ورزی پر قانونی کارروائی کا انتباہ

عورت مارچ کے لیے سخت شرائط کے تحت اجازت نامہ جاری، خلاف ورزی پر قانونی کارروائی کا انتباہ
اسلام آباد: شہر اقتدار کی ضلعی انتظامیہ نے سخت شرائط کے تحت عورت مارچ کے لیے اجازت نامہ جاری، خلاف ورزی کی صورت میں قانونی کارروائی کا انتباہ بھی جاری کر دیا گیا۔

ملک بھر میں عالمی یوم خواتین پر عورت مارچ کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ 8 مارچ کو اسلام آباد، کراچی اور لاہور سمیت ملک کے تمام بڑے شہروں میں خواتین کے حقوق اور مسائل  پر توجہ دلوانے کے لیے عورت مارچ کیا جائے گا۔

اسلام آباد میں عورت مارچ کے اجازت نامے کے لیے مارچ کے منتظمین کی جانب سے ضلعی انتظامیہ کو جمع کروائی گئی درخواست پر اجازت نامہ جاری کرتے ہوئے شہر اقتدار کی انتظامیہ نے سخت شرائط عائد کر دی ہیں۔ 

ضلعی مجسٹریٹ کی جانب سے جاری کردہ اجازت نامے میں جو شرائط عائد کی گئی ہیں ان کے مطابق عورت مارچ کے منتظمین کو اپنی سیکیورٹی کا بندوبست خود کرنا ہوگا، لاؤڈ سپیکر کے استعمال پر پابندی ہوگی، آتش بازی کی اجازت نہیں ہوگی، مارچ میں کسی بھی قسم کا آتشی سامان یا اسلحہ ممنوع ہو گا، سیاسی اور فرقہ ورانہ تقریر پر پابندی ہوگی، منتظمین کو پارکنگ کا بندوبست خود کرنا پڑے گا، مارچ میں آنے والے تمام لوگوں کی تلاشی لی جائے گی، ملکی و مذہبی اقدار کے خلاف نعرے بازی نہیں کی جائے گی، ملکی، مذہبی اور معاشرتی روایات اور اقدار کے خلاف بینرز اور پلے کارڈز کی اجازت نہیں ہو گی اور ثقافتی اقدار کا خیال رکھا جائے گا۔

ضلعی انتظامیہ کے اجازت نامے میں لکھا ہے کہ ان تمام شرائط میں سے کسی کی بھی خلاف ورزی پر قانونی کارروائی کی جائے گی اور انتظامیہ کو حق ہو گا کہ وہ کسی بھی مقام پر اس اجازت نامے کو منسوخ کر دے۔



 

عورت مارچ کی منتظمین نے بتایا کہ اِس سال خواتین کے عالمی دن کے موقع پر اُن کا منشور 15 نکات پر مشتمل ہے۔ جس کے تحت ایک ایسے معاشرے کا مطالبہ کرنا ہے جس میں خواتین کو عزت دی جائے۔ اُن کا استحصال نہ کیا جائے۔

منشور کے مطابق 2020 کے عورت مارچ کے مقاصد میں خواتین کی معاشی خود مختاری، صحت، تعلیم اور نظام عدل میں اُنہیں بااختیار اور خود کفیل بنانا شامل ہے۔ منشور میں یہ بات بھی شامل ہے کہ خواتین کو اپنے جسم پر خود مختاری ہو۔

منشور میں کہا گیا ہے کہ خواتین کے خلاف گھریلو تشدد جیسے جرائم کو روکنے کے لیے اِسے پاکستان بھر میں غیرقانونی قرار دیا جائے۔ اور تعلیمی اداروں میں جنسی تشدد روکنے کے لیے خود مختار کمیٹیاں تشکیل دی جائیں۔

منشور میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے موثر قانون سازی کی جائے۔ عورت مارچ منشور میں اِس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ تعلیمی اداروں میں سیکیورٹی اور تحفظ کے نام پر طلبہ کی نگرانی اور ریاستی اداروں کی مداخلت ختم کی جائے۔

واضح رہے کہ عورت مارچ کو چند طبقوں کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا ہے۔ اس مارچ کو رکوانے کے لئے مخالفین کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواستیں بھی جمع کروائی گئیں۔ عورت مارچ کے مخالفین کی درخواستوں پر سماعت کے بعد عدالتوں نے عورت مارچ کو قانونی قرار دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ احتجاج کرنا ہر فرد کا قانونی حق ہے، کسی کو بھی اس حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔

لاہور ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ نے عورت مارچ کو روکنے کی درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے قانونی دائرے میں رہ کر احتجاج کی اجازت دی اور انتظامیہ کو حکم دیا کہ مظاہرین کو تحفظ فراہم کیا جائے۔