داعش سے رابطے اور رکنیت کا الزام : امریکا میں پاکستانی ڈاکٹر گرفتار

داعش سے رابطے اور رکنیت کا الزام : امریکا میں پاکستانی ڈاکٹر گرفتار
امریکہ میں ایف بی آئی کی جوائنٹ ٹیررزم ٹاسک فورس نے داعش سے رابطے اور تعلق کے الزام میں ایک پاکستانی ڈاکٹر کو گرفتار کر لیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق ایف بی آئی پراسکیوٹر نے مینیسوٹا ڈسٹرکٹ کی عدالت کو بتایا ہے کہ 28 سالہ پاکستانی ڈاکٹر محمد مسعود نے ایف بی آئی کے ایجنٹس کے سامنے تسلیم کیا ہے کہ وہ داعش میں شامل ہونے جا رہے تھے اور امریکا میں بطور 'لون وولف' تنہا حملے کی تیاری کر رہے تھے۔
محمد مسعود نامی اس ڈاکٹر کو مینیپولس سینٹ پال انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ لاس اینجلس کی فلائٹ میں سوار ہونے والے تھے۔
اس پر ایک دہشت گرد تنظیم کی مالی معاونت اور دہشت گردوں سے رابطے کا الزام ہے۔ ایف بی آئی کی جانب سے مینیسوٹا ڈسٹرکٹ کورٹ جمع کرائے گئے بیان حلفی میں بتایا گیا ہے کہ ڈاکٹر مسعود پاکستان میں ایک لائسنس یافتہ ڈاکٹر تھا جو کہ گزشتہ دو سال سے امریکا رہ رہا تھا۔ پاکستان میں محمد مسعود نے رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی سے ایم بی بی ایس کیا۔ اس یونیورسٹی کے ویب سائٹ کے مطابق یہ اسلامی اقدار کے حامل پیشہ ورانہ افراد تیار کرتی ہے۔ ڈاکٹر مسعود نے پمز ہسپتال اسلام آباد میں ہاؤس جاب جب کہ محکمہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئرمیں بطور میڈیکل آفیسر کام کیا۔ وہ گزشتہ دو سالوان سے امریکہ میں مئیو کلینک کے ساتھ بطور ریسرچر منسلک تھے۔
ایف بی آئی نے انکشاف کیا ہے ڈاکٹر مسعود کے خلاف تحقیقات تب شروع کی گئیں جب ایک سوشل میڈیا ایپ پر BB نامی صارف کی جانب سے دہشت گرد تنظیم داعش سے رابطوں اور انکے امیر کے لئے اپنی اطاعت پیش کی گئی جبکہ امریکہ سے شام ہجرت کے معاملات پر ان سے مدد طلب کی گئی۔ ایف بی آئی کے مطابق BB نامی یہ صارف ڈاکٹر مسعود ہی تھے۔

دو انڈر کور ایجنٹس جنکو ملزم داعش کے کارندے سمجھتا رہا کے ذریعے قابو کیا گیا۔ اس BB نامی صارف یعنی ڈاکٹر مسعود نے سوشل میڈیا ایپ پر ان دو ایجنٹس کو بتایا کہ وہ ہر حالت میں شام جانا چاہتا ہے کیونکہ قیامت قریب ہے اور وہ کسی بھی طرح شام سے اٹھنے والے اس لشکر میں موجود ہونا چاہتا جس کی بشارت دی گئی۔ اسنے اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ وہ فرنٹ لائن پر بطور ڈاکٹر اپنے مجاہدین بھائیوں کی مدد کرنا چاہتا ہے۔ ڈاکٹر مسعود کی جانب سے ان ایجنٹس کو بھائی کہہ کر پکارا جاتا۔ اس نے ان سے داعش کے جنگجوں سے اسلحہ چلانے کی تربیت حاصل کرنے میں مدد کی بھی درخواست کی۔

جب کہ اسنے خواہش ظاہر کی کہ وہ انجینئرنگ سیکھ کر داعش کے لئے ڈرون اور دیگر جنگی ساز و سامان بھی بنانا چاہتا ہے۔ ایف بی آئی کے مطابق اس نے امریکہ میں مئیو کلینک جہاں وہ کام کرتا تھا وہاں سے استعفی' کا نوٹس دے دیا تھا جبکہ اپنے فلیٹ کا سارا سامان آن لائن بیچ دیا تھا۔ جبکہ فلیٹ کے مالک کو بھی نوٹس دے دیا تھا۔ وہ 19 مارچ کو ائیرپورٹ پہنچا جہاں سے اسے لاس اینجلس جانا تھا۔ تاہم ائیرپورٹ کے سیکیورٹی کلئیرنس کاونٹر اپر اسے دھر لیا گیا تھا۔ ایف بی آئی کو دوران تفتیش اسنے بتایا کہ وہ انور النصر الوالکی کا پیروکار بن گئے تھے۔

الولاکی کو انٹرنیٹ کا بن لادن قرار دیا جاتا ہے اور اس پر نائن الیون کا حملہ کرنے والے دہشتگردوں میں سے دو کی تربیت کا بھی الزام ہے۔ اس کی ان ایجنٹس کے ساتھ بات چیت میں ظاہر ہوا ہے کہ وہ شہادت چاہتا تھا اور کافروں کے لئے اس کے دل میں شدید نفرت تھی۔ جس کا اظہار وہ اپنی چیت میں بار ہا کر چکا تھا۔ اس وقت ڈاکٹر مسعود کا کیس امریکی عدالت میں جاری ہے تاہم اگر ان پر یہ الزامات ثابت ہو جاتے ہیں تو انہیں 20 سال تک جیل کی سزا ہو سکتی ہے۔
یاد رہے کہ عافیہ صدیقی اس سے پہلے ایسی پاکستانی ڈاکٹر خاتون تھیں جنہیں 2008 میں افغانستان میں گرفتار کیا گیا تھا اور ان سے بڑے پیمانی پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے ڈیزائن سمیت امریکی شہروں کے نقشے ملے تھے۔ ان پر بھی مقدمہ چلا تھا اور اب وہ 86 سال کی قید کاٹ رہی ہیں۔پاکستان میں عوامی سطح پر جہاں انہیں بے قصور مانا جاتا ہے وہیں سیاسی لیڈر اکثر انکی رہائی کے لئے کوشش کرنے کے وعدے کر چکے ہیں۔ جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت دیگر ادارے ان کے ساتھ ہونے والی مبینہ جنسی زیادتی اور دیگر حقوق کی پامالی پر سوال اٹھا چکے ہیں۔