’کیا تم اللہ پر اپنی دین داری جتاتے ہو؟‘ قاضی فائز عیسیٰ کا چیف جسٹس کو خط

’کیا تم اللہ پر اپنی دین داری جتاتے ہو؟‘ قاضی فائز عیسیٰ کا چیف جسٹس کو خط
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس گلزار احمد کو ایک خط لکھ کر سپریم کورٹ کی عمارت میں نمازِ باجماعت کو رکوانے سے متعلق اپنا نکتہ نظر بیان کیا ہے اور اس کے مندرجات پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ یوں تو کارپوریٹ لا کے ماہر مانے جاتے ہیں لیکن اس خط سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کو مذہبی قوانین پر بھی دسترس حاصل ہے۔

ذیل میں قاضی فائز عیسیٰ کے خط کے چند اہم ترین مندرجات پیش کیے جا رہے ہیں۔

وہ لکھتے ہیں کہ میں نے آپ یعنی چیف جسٹس سے گذارش کی تھی کہ جب تک کرونا وائرس کی وبا ختم نہیں ہو جاتی، سپریم کورٹ کی عمارت میں نمازِ باجماعت کا سلسلہ معطّل کر دیا جانا چاہیے، جس کے جواب میں آپ نے مجھ سے اس کی مذہبی تاویل کے حوالے سے لکھنے کو کہا تھا۔ میں نے آپ کے سوال کا جواب اپنے محدود علم کی روشنی میں لکھنے کی کوشش کی ہے، اور تاحال میری نظر سے اس کا متضاد نکتہ نظر نہیں گزرا ہے جس میں قرآنی حوالہ جات کے ساتھ کہا گیا ہو کہ اپنی جان کو خطرے کے باوجود مسجدوں میں نماز ادا کرو۔ اگر میں نے اس پیغام کو غلط سمجھا ہے تو میں اللہ سے معافی کا طلبگار ہوں۔

جنابِ عالی، کرونا وائرس ایک طبی معاملہ ہے اور اس پر بہترین نکتہ نظر بھی طبی ماہرین اور ڈاکٹرز کا ہی ہو سکتا ہے اور یہ برادری کرونا وائرس کے دوران مذہبی اجتماعات کو روک دینے کے حوالے سے مکمل طور پر اتفاق رکھتی ہے۔

انہوں نے اپنے خط کی شروعات سورۃ سبا کی آیت 14 کا حوالہ دے کر کی ہے کہ ’’پھر جب ہم نے اس پر موت کا حکم کیا تو انہیں اس کی موت کا پتہ نہ دیا مگر گھن کے کیڑے نے جو اس کے عصا کو کھا رہا تھا‘‘۔ انہوں نے لکھا کہ ایک معمولی کیڑے نے ایک پیغمبر اور بادشاہ کے اس جہانِ فانی سے کوچ کرنے کا سامان کیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ایک معمولی جرثومے کرونا وائرس نے بھی ہزاروں سال بعد کچھ مذہبی سوالات کو جنم دیا ہے کہ کیا ہمیں مذہبی رسومات ادا کرتے ہوئے ایک جگہ اکٹھا ہونا چاہیے، باجماعت نماز ادا کرنی چاہیے یا نہیں۔ جسٹس عیسیٰ نے یاد دلایا کہ نماز کے دوران بار بار جسم کے اعضا کو چھوا جاتا ہے اور سجدہ کرتے ہوئے زمین پر ماتھا بھی ٹیکا جاتا ہے اور اس دوران وائرس کی ترسیل ہو سکتی ہے۔



انہوں نے کہا کہ علم، بشمول سائنسی علم حاصل کرنا اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔ انہوں نے لکھا کہ قرآن میں عقل کا لفظ 49 مرتبہ استعمال کیا گیا ہے۔ یتفکر یعنی فکر کی دعوت 17 مرتبہ دی گئی ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عقل والوں کے لئے نشانیاں رکھی ہیں۔

جسٹس عیسیٰ لکھتے ہیں کہ قرآن میں انسانی جان کی اہمیت پر بھی خصوصی طور پر زور دیا گیا ہے اور ایک انسان کو بلاوجہ قتل کرنے کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلام نے یہاں ہر شخص کی زندگی کو محفوظ بنانے کا حکم دے دیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ لوگوں سے دوری بنائے رکھنا وائرس کو پھیلنے سے روکتا ہے اور اس کو شکست دینے کا راستہ بھی یہی ہے۔ ماہرین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ وائرس کپڑے اور دیگر سطحوں پر کئی دن تک رہ سکتا ہے۔ یہاں وہ قرآن کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس میں عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔

اگلے ہی جملے میں وہ سورۃ الانساء سے حوالہ دیتے ہیں کہ اپنی جانیں مت لو۔ خود اپنے ہاتھوں سے خود کو تباہ مت کرو اور نیکی کے عمل کرتے رہو۔

ان کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں نے صفائی کو بھی کرونا وائرس سے بچنے کا ایک اہم طریقہ بیان کیا ہے۔ اور صفائی بھی دینِ اسلام کا ایک اہم ترین جز ہے۔ ’اور اللہ خود کو پاک کرنے والوں کو پسند کرتا ہے‘ (سورۃ توبہ) ’اور جو کوئی بھی خود کو پاک رکھتا ہے وہ اپنے لئے ہی رکھتا ہے‘ (سورۃ فاطر) اور اس کے فوراً بعد یہ آیات ہیں کہ ’اندھا اور دیکھے والا برابر نہیں۔ اور نہ ہی اندھیرا اور اجالا اور نہ سایہ اور نہ تیز دھوپ‘۔

انہوں نے قرآن کی سورۃ النساء اور سورۃ المائدہ سے حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ نماز فرض ہے لیکن بیماری کی صورت میں اس سے چھوٹ بھی دی گئی ہے۔ اور اس کی وجہ بھی سورۃ المائدہ میں بتائی گئی ہے کہ اللہ تمہیں مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتا بلکہ تمہیں پاک کر دینا چاہتا ہے۔ سورۃ البقرۃ کی آیت 286 کا حوالہ دیتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ اللہ کسی جان پر ایسی آزمائش نہیں ڈالتا کہ جسے برداشت کرنے کے وہ قابل نہ ہو۔ انہوں نے لکھا ہے کہ اس وبا کے دوران نماز نہیں روکی جا سکتی لیکن گھروں کو عبادت گاہ میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

سورۃ یونس کا حوالہ دیتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ ہم نے موسیٰ اور اس کے بھائی پر وحی نازل کی کہ اپنے لوگوں کو کو مصر لے جاؤ اور اپنے گھروں کو عبادتگاہیں بنا لو اور وہاں باقاعدگی سے عبادت کرو۔ تم جہاں کہیں بھی جاؤ گے، وہاں خدا ہوگا۔ رسول اکرمﷺ نے فرمایا کہ تمام زمین میرے لئے ایک مسجد ہے لہٰذا میری امت کا کوئی بھی شخص کہیں بھی موجود ہو، جب نماز کا وقت آئے تو اسے نماز ادا کرنی چاہیے۔

اللہ نماز پڑھنے کا حکم دیتے ہوئے کہتا ہے کہ اگر خوف ہو تو پیدل چلتے ہوئے اور سواری پر بیٹھے بیٹھے ہی نماز پڑھی جا سکتی ہے اور اگر مؤمنین کو حملے کا خطرہ ہو تو نماز کو چھوٹا بھی کیا جا سکتا ہے۔ اور جان کے خطرے کی صورت میں باجماعت نماز کو روکا بھی جا سکتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ سورۃ النساء میں فرماتا ہے کہ جب خطرہ ٹل جائے تو پہلے کی طرح نماز پڑھنا شروع کر دو۔



جسٹس قاضی فائز عیسیٰ لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جو سب کچھ دیکھ رہا ہے وہ صورتحال کے مطابق عام حالات سے ہٹ کر فیصلے کرنے کی اجازت بھی دیتا ہے۔ مثلاً وضو کے لئے پانی نہ ہو تو تیمم کیا جا سکتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ حرام کھانے سے قرآن کی سورۃ المائدہ میں منع فرمایا گیا ہے لیکن انہی آیات میں شدید بھوک اور ضرورت کے عالم میں ان چیزوں کو کھانے کی اجازت بھی دی گئی ہے جنہیں عام حالات میں کھانے کی ممانعت ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ ایک ایسی بیماری جو اکٹھ سے بڑھنے کا خدشہ ہو اور پھر گھر جانے کی صورت میں گھر والوں کو بھی لگ سکتی ہو، جس کا کوئی علاج تاحال دریافت نہ ہوا ہو اور موت کا اندیشہ بھی ہو تو اسے شدید خطرے کی صورت مانا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ یاد رکھا جانا چاہیے کہ اللہ آسانیاں پیدا کرنے والا ہے۔

جسٹس عیسیٰ آخر میں لکھتے ہیں کہ لوگوں کے لئے مشکلات پیدا کرنے اور مؤمنین کی جانوں کو خطرے میں ڈالنے پر بھی اللہ تعالیٰ نے جواب دے رکھا ہے: ’کہہ دو کیا تم اللہ پر اپنی دین داری جتاتے ہو؟‘ اسلام میں زیادتی یا جبر نہیں ہے۔ اسلام میانہ روی اور میزان کا دین ہے۔ قرآن میں اللہ فرماتا ہے کہ مؤمنین وہ ہیں نیکی میں میانہ روی اختیار کرتے ہیں اور زمین میں فتنہ نہیں پھیلاتے‘

’بیشک خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی جو خود کو بدلنے کی کوشش نہ کرتی ہو‘۔

اگر میں نے اللہ تعالیٰ کے پیغام کو سمجھنے میں غلطی کی ہے، تو میں اس کے لئے معافی کا طلبگار ہوں۔