طالبان قیادت کی صفوں میں شیعہ کمانڈر 'مہدی مجاہد' کا ظہور: طالبان کے کٹر سنی نظریات تبدیلی کی زد میں؟

طالبان قیادت کی صفوں میں شیعہ کمانڈر 'مہدی مجاہد' کا ظہور: طالبان کے کٹر سنی نظریات تبدیلی کی زد میں؟

افغانستان میں بھی یوں لگ رہا ہے کہ تبدیلی کی لہر چل پڑی ہے اور اب تک سخت شیعہ مخالف سنی نظریات کے حامل افغان طالبان  کی جانب سے  شیعہ مسلک اور ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے رہنما کو بطور طالبان رہنما سامنے لایا گیا ہے۔ بی بی سی کے مطابق افغان طالبان کی آفیشل  ویب سائٹ پر ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے شیعہ کمانڈر مولوی مہدی مجاہد کا ویڈیو انٹرویو شائع کیا گیا ہے جس میں انھوں نے ہزارہ برادری سے کہا ہے کہ جیسے وہ ’سوویت یونین کے خلاف اپنے سنی بھائیوں کے ساتھ کھڑے تھے اسی طرح اب افغانستان پر حملہ آوروں کے خلاف بھی طالبان کا ساتھ دیں۔ 


اس خبر کے پس منظر میں یہ یاد رکھنا اہم ہے کہ  افغان طالبان خالصتاً ایک سنی تنظیم کے طور پر 1990 کی دہائی میں ابھر کر سامنے آئی تھی اور اس دوران ہزارہ برادری کے لوگوں پر متعدد حملے کیئے گئے تھے۔ ایک طویل عرصے تک افغان طالبان نے افغانستان میں شیعہ اقلیتی ہزارہ برادری پر متعدد حملے کیے لیکن اب بظاہر پہلی مرتبہ ایسے طالبان کمانڈر کا انٹرویو سامنے آیا ہے جو ہزارہ برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔

 بی بی سی کے مطابق ویڈیو انٹرویو میں مولوی مہدی نے ہزارہ کمیونٹی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ سوویت یونین کے خلاف سنی بھائیوں کے ساتھ اگلی صفوں میں موجود نہیں تھے، تو اب طالبان کے ساتھ ملک میں ان حملہ آوروں کے خلاف کیوں ساتھ نہیں دیتے؟اس انٹرویو میں جب ان سے پوچھا گیا کہ طالبان اہل تشیع کے بارے میں کیا نظریہ رکھتے ہیں تو انہوں نے جواب میں کہا کہ طالبان سب کو ایک نظر سے دیکھتے ہیں اور ان کے نزدیک سب اقوام برابر حیثیت رکھتی ہیں۔

مولوی مہدی مجاہد کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ  یہ طالبان کی صفوں میں کوئی نئی شمولیت نہیں بلکہ وہ ایک عرصہ سے طالبان کا حصہ تھے۔ اس حوالے سے بی بی سی نے بتایا ہے کہ  طالبان کے ترجمان زبیح اللہ مجاہد  کے مطابق  یہ تعیناتی اب نہیں کی گئی بلکہ مولوی مہدی مجاہد ان کے ساتھ ’جہاد‘ میں ایک عرصے سے شامل ہیں۔انھوں نے کہا کہ وہ کافی عرصے سے صوبہ سرپل میں بلخاب ضلع کے سربراہ تعینات ہیں۔ انھوں نے مزید بتایا کہ ہاں یہ ضرور ہے کہ ان کا یہ انٹرویو اب پہلی مرتبہ ان کی ویب سائٹ پر شائع ہوا ہے

اس پیش رفت کے بعد  یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ آیا یہ پہلی بار ہے کہ طالبان نے کسی شیعہ رہنما کو تنظیم میں شامل کیا اور کیا طالبان اپنی ماضی کی پالیسیوں میں تبدیلی لا رہے ہیں؟ بی بی سی نے لکھا کہ 'افغان تجزیہ کاروں کے مطابق طالبان کی قیادت تمام سنی قائدین پر مشتمل ہے لیکن افغانستان کے شمالی علاقوں میں برائے نام تاجک قائدین بھی موجود ہیں اور اب برائے نام شیعہ قائدین کو شامل کیا جا رہا ہے تاکہ وسیع البنیاد حکومت قائم کرنے کے لیے کوششیں کی جائیں‘۔


افغان صحافیوں کے مطابق حال ہی میں طالبان نے افغانستان میں ازبک اور تاجک کمیونٹی سے بھی کچھ لوگوں کو اپنی صفوں میں شامل کیا ہے اور اس کا مقصد ان علاقوں تک رسائی حاصل کرنا ہے جہاں اب تک طالبان کی نمائندگی نہیں ہے۔

مغربی تجزیہ نگار بھی اسے امریکا اور طالبان کے درمیان جاری مذاکرات کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ انکے مطابق طالبان کو شاید امریکی انتظامیہ کی جانب سے اشارے دیئے گئے ہیں کہ اگر وہ ایک کثیر القومی افغان اتحاد تشکیل دینے میں کامیاب ہو سکیں تو  امریکا کی جانب سے افغان حکومت کی بجائے وزن ان کے پلڑے میں ڈالا جا سکتا ہے۔