لاہور میں گردن توڑ قاتل مالشی گینگ کا انکشاف: 'میرے کہنے پر گاہک گردن ڈھیلی کرتے، میں گردن پر گھٹنا رکھ کر منکا توڑ دیتا'

لاہور میں گردن توڑ قاتل مالشی گینگ کا انکشاف: 'میرے کہنے پر گاہک گردن ڈھیلی کرتے، میں گردن پر گھٹنا رکھ کر منکا توڑ دیتا'

گذشتہ ایک برس سے  لاہور میں ایسی لا وارث لاشوں کے ملنے کا سلسلہ جاری تھا جن میں انہیں سینے پر خنجر کے وار کر کے یا پھر گردن کی ہڈی توڑ کر ہلاک کیا گیا تھا۔ رواں برس جنوری  میں اندرون لاہور کےعلاقے بھاٹی گیٹ میں داتا دربار کے عین سامنے میٹرو بس کے پُل کے نیچے پولیس کو ایک لاوارث لاش ملی تھی اور ایک لاش قریب ہی اسلام پورہ سے بھی چند ماہ قبل بھی ملی تھی۔ان دونوں افراد کو تیز دھار آلہ سینے میں اتار کر قتل کیا گیا تھا۔


قریب ہی کے علاقوں شاد باغ اور پھر راوی روڈ سے بھی ایک برس پہلے دو لاشیں ملی تھیں۔ ان واقعات میں بھی طریقہ واردات ایک جیسا تھا۔ ان کو گردن کی ہڈی توڑ کر قتل کیا گیا تھا۔ راہ چلتے افراد کو گردن توڑ کر قتل کرنا عمومی مجرموں کا طریقہ کار نہیں تھا۔ ہلاک ہونے والے ان افراد میں نشے کے عادی اور ’مالشیے‘ تھے اور ایسے درجنوں بے گھر افراد میں شامل تھے جو داتا دربار اور اس سے ملحقہ علاقوں میں سڑک کنارے رہتے ہیں۔


 گنجان آباد اور پر ہجوم  اس علاقے میں کون ان افراد کو کس وقت اور کیسے قتل کر گیا، کسی کو نہیں معلوم تھا۔ تاہم اب اس بارے میں سنسنی خیز انکشافات سامنے آئے ہیں۔ سی آئی اے لاہور پولیس نے ان وارداتوں کی تحقیقات کے دوران ایک ایسے مالشی گینگ کو بے نقاب کیا ہے جو کہ اپنے ساتھی نشئی مالشیوں، راہگیروں اور گاہکوں کی گردن کی ہڈی توڑ کر انہیں ہلاک کر دیتا اور ان کے پاس موجود رقم اور دیگر قیمتی سامان لے اڑتا۔ 

پولیس نے اس گروہ کے مرکزی کردار کو ٹریس کرتے ہوئے پکڑا ہے جس نے اپنے طریقہ قتل اور اس جرم کے پیچھے محرکات کے بارے میں بیان کیا ہے۔  بی بی سی کے مطابق  مرکزی کردار ججی نے پولیس کو بتایا کہ اسلام پورہ میں محمد فہیم کا قتل اس نے راہ چلتے ہوئے چھری کا وار کر کے کیا تھا۔ لیکن تین سال قبل اس نے پہلا قتل ایک راہ چلتے شخص کی گردن کی ہڈی توڑ کر کیا تھا۔

اس نے پولیس کو بتایا کہ ’پیچھے سے جا کر میں نے اسے دبوچ لیا تھا اور گردن کے پچھے گھٹنا رکھ کر اس کی گردن کو دونوں ہاتھوں سے گھما کر توڑ دیا تھا۔‘ اکثر میرے کہنے پر گاہک گردن ڈھیلی کرتے، میں گردن پر گھٹنا رکھ کر منکا توڑ دیتا'

اس نے زیادہ تر وارداتوں میں جن لوگوں کو نشانہ بنایا وہ اسی کے حلقے کے لوگ تھے اور اسے یہ بھی ڈر تھا کہ انھیں زندہ چھوڑ دینے سے وہ پکڑا جا سکتا تھا۔ ’لیکن نشے کی عادت نے اس کی سوچنے سمجھنے کے صلاحیت متاثر کر رکھی تھی۔ وہ نشہ حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کر سکتا تھا.

راولپنڈی کے علاقے فیض آباد میں ایک پارک کے اندربھی اسنے قتل کیا تھا  اور اس میں اس کے ساتھیوں نے بھی مدد کی تھی۔ وہ شخص موقع پر ہلاک ہو گیا تھا اور ججی اس کے پاس موجود نقدی اور موبائل فون لے کر فرار ہو گیا تھا۔

تفتیشی افسر کے مطابق ملزم نے قتل کرنے کے اس طریقے کی کوئی تربیت نہیں لے رکھی تھی۔ بس یہ کام مالش کرنے والوں کو معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے جسم کے کن حصوں پر کتنا دباؤ دیا جائے تو انسان بیہوش ہو سکتا ہے یا اسے مارنا ہو تو اس کی گردن کیسے توڑی جا سکتی ہے۔

پولیس کے مطابق ماضی میں بھی اس نوعیت کے واقعات سامنے آ چکے تھے جن میں مالش کرنے والے پیشہ ور افراد ڈکیتی اور چوری کی وارداتوں میں ملوث پائے گئے تھے۔ تاہم ایسا بہت کم ہوتا تھا کہ کسی کو لوٹنے کے بعد اسے قتل کر دیتے ہوں۔ زیادہ تر یہ مالش کرنے والے جرائم پیشہ افراد اپنے شکار کے جسم کے کچھ ایسے حصے دباتے تھے کہ یا تو وہ سو جاتا تھا یا وہ حواس کھو بیٹھتا تھا اور وہ اس کے پیسے اور قیمتی سامان لے کر فرار ہو جاتے تھے۔