ایک ماہ میں 200 سے زائد افراد کو بھتے کے خطوط : کیا طالبان خیبر پختونخوا میں پھر سے منظم ہو رہے ہیں؟

ایک ماہ میں 200 سے زائد افراد کو بھتے کے خطوط : کیا طالبان خیبر پختونخوا میں پھر سے منظم ہو رہے ہیں؟
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں اور خصوصاً ضم شدہ قبائلی اضلاع میں رمضان کے آغاز سے پہلے 200 سے زائد افراد کو تحریک طالبان پاکستان کو جہاد کے لئے چندہ جمع کرنے کے نام پر خطوط جاری کیے ہیں اور جن لوگوں نے خطوط کا جواب نہیں دیا یا چندہ نہیں دیا اُن کو پڑوسی ملک افغانستان کے ٹیلیفون نمبرز سے دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ ان میں تحریک طالبان پاکستان سے وابستہ افراد ان کو سخت ترین نتائج بھگتنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ واضح رہے کہ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ایک ممبر اسمبلی نے تحریک طالبان پاکستان کے چندہ جمع کرنے کے حوالے سے کوئی جواب نہیں دیا تھا جس کے بعد قبائلی علاقے میں ان کے گھر کو ہینڈ گرنیڈ سے نشانہ بنایا گیا۔

نیا دور میڈیا کی تحقیقات کے مطابق حکمران جماعت کے اس ممبر پارلیمان نے حملے کے کچھ روز بعد تحریک طالبان پاکستان کو پچاس لاکھ تک بھتہ ادا کیا۔ اس وقت قبائلی اضلاع باجوڑ، مہمند اور کرم میں 200 سے زیادہ لوگوں کو بھتہ ادا کرنے کے لئے خطوط جاری کیے گئے ہیں جب کہ اس کے ساتھ پشاور، چارسدہ، شبقدر اور مردان میں مقیم شہریوں کو بھی چندہ ادا کرنے کے لئے خطوط جاری کیے جا چکے ہیں۔

نیا دور کے نمائندے نے چارسدہ میں مقیم ایک شخص سے ملاقات کی جن کو رمضان میں تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے 20 لاکھ روپے بھتہ جمع کرانے کے احکامات دیے گئے تھے اور ان کو ایک خط بھی جاری کیا گیا تھا۔ طالبان کی جانب سے جاری کیا گیا خط پشتو زبان میں لکھا گیا تھا جس پر تحریک طالبان پاکستان کا لوگو موجود تھا۔ خط میں نام اور ولدیت کے ساتھ لکھا گیا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان کفار اور اُن کے ہمنواؤں کے ساتھ جہاد میں برسرپیکار ہے اور آپ کو اللہ نے مال سے نوازا ہے اس لئے اپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپ اس عظیم کام میں اپنے مجاہدین بھائیوں کی مدد کریں۔



چارسدہ میں مقیم شاہد علی نے نیا دور کو بتایا کہ 10 رمضان کو جب وہ گھر سے نکلے تو اُن کو گھر کے سامنے یہ خط ملا جس کے بعد انھوں نے اس خط کو اتنا سنجیدہ نہیں لیا مگر کچھ روز بعد ان کو افغانستان کے نمبرز سے کالز موصول ہونا شروع ہوئیں۔ جواب نہ دینے پر اُن کو سنگین دھمکیاں دی گئیں جس کے بعد انھوں نے پاکستان کی خفیہ ایجنسی کو ایک باقاعدہ درخواست جمع کرائی۔ انھوں نے مزید کہا کہ عید کے دوسرے روز پولیس نے ایک شخص کو گرفتار کیا ہے جو مجھ سے بھتہ مانگ رہا تھا اور اُن کا تعلق تحریک طالبان سوات سے ہے۔

واضح رہے کہ رمضان کے مہینے میں ضلع باجوڑ میں ایک سرکاری جرگے میں ایک مقامی شخص نے سکیورٹی فورسز کے ایک اعلیٰ عہدیدار سے سوال کیا کہ طالبان اُن سے بھتے مانگ رہے ہیں جس پر سکیورٹی اہلکار نے جواب دیا کہ اتنی زیادہ تعداد میں مانگ رہے ہیں کہ ٹماٹر والے بھی محفوظ نہیں۔

ضلع کرم جو ماضی میں شیعہ سنی فسادات کی وجہ سے مسلسل خبروں میں رہا وہاں کچھ روز پہلے انتہاپسند تنظیم نے اہل سنت سے تعلق رکھنے والے افراد کو مختلف ذرائع سے خبردار کیا ہے کہ وہ اہل تشیع سے کاروباری سرگرمیاں معطل کریں ورنہ اپنے نقصان کے ذمہ دار خود ہوں گے۔ کرم سے انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے ایک کارکن نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ ضلع میں کسی کو بھتہ کے لئے تاحال کوئی خطوط نہیں ملے مگر انتہا پسند تنظیمیں مسلسل وہاں شیعہ سنی فسادات کو ہوا دے رہی ہیں اور حال ہی میں وہ خطوط جاری کیے گئے ہیں جن میں اہل تشیع سے تعلقات اور کاروبار منقطع کرنے کے احکامات دیے گئے ہیں جس کے بعد علاقے میں خوف و ہراس ہے کیونکہ وہاں ہزاروں اہل تشیع اور اہل سنت آپس میں نسل در نسل کاروبار سے منسلک ہیں۔

اس وقت تک قبائلی اضلاع میں پانچ پارلیمینٹیرینز سے بھتہ مانگا جا رہا ہے جس میں دو کروڑ سے پانچ کروڑ تک کی رقم شامل ہے۔ نیا دور میڈیا کو ایک ممبر پارلیمنٹ نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ رمضان سے کچھ روز پہلے تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے بھتہ مانگنے کے لئے خطوط جاری کیے گئے مگر انھوں نے سمجھا کہ شائد کوئی قریبی لوگ یا مخالف سیاسی لوگ اُن کو تنگ کر رہے ہیں۔ مگر کچھ روز بعد اُن کو باقاعدہ کالز موصول ہونا شروع ہوئیں اور تین کروڑ روپے ادا کرنے کا مطالبہ کیا گیا جو اُن کے پاس نہیں تھے۔

انھوں نے مزید کہا کہ دھمکیاں ملنے کے بعد انھوں نے مقامی پولیس کو درخواست جمع کرائی مگر پولیس کو کوئی کامیابی نہیں ملی اور پھر انہوں نے بھی کوئی توجہ نہیں دی۔ لیکن کچھ روز پہلے ان کے گھر پر بموں سے حملے کی کوشش کی گئی جس کو ان کی سکیورٹی پر مامور اہلکاروں نے ناکام بنایا جس کے بعد انھوں نے اپنی سکیورٹی مزید سخت کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ طالبان کو ہماری نقل و حرکت کی مکمل معلومات ہوتی ہیں اور ہم جہاں بھی جاتے ہیں وہ فون یا پیغام چھوڑ دیتے ہیں کہ آپ کہاں پر ہو۔

انھوں نے مزید کہا کہ یہ ایسی صورتحال ہے جیسے یہ کوئی شام یا افغانستان کا علاقہ ہو جہاں ریاست کی عملداری نظر نہیں آتی۔ واضح رہے کہ مہمند اور باجوڑ میں طالبان کی جانب سے بھتوں کے یہ خطوط جن میں چندہ جمع کرنے کے احکامات دیے گئے ہیں، یہ چھوٹے کاروبار سے منسلک حضرات سے لے کر سرکاری ملازمین تک کو موصول ہوئے ہیں۔

نیا دور میڈیا کو ایک سرکاری ملازم نے بتایا کہ دو سال پہلے ان کو چندہ دینے کے لئے دھمکیاں دی گئیں جس کے بعد انھوں نے گھر میں خواتین کا زیور اور کچھ زمین بیچ کر بیس لاکھ روپے ادا کیے مگر اب دوبارہ سے پندرہ لاکھ روپے تاوان کا مطالبہ ہے اور میں نے صاف کہہ دیا کہ جب بھی آپ نے مجھ کو مارنا ہو تو مجھے جگہ بتا دیں میں آ جاؤں گا اور میرے گھر مارنے کے لئے مت آؤ کیونکہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں اور میں تو دو لاکھ بھتہ بھی نہیں ادا کر سکتا ہوں۔

پشاور میں ایک چھوٹے کاروبار سے وابستہ ضلع مہمند کے ایک شہری نے بتایا کہ ان کو کل کاروبار تقریباً دس لاکھ روپے کا ہے مگر اس کے باوجود ان پر زندگی تنگ کی گئی ہے اور طالبان پانچ لاکھ تاوان کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن جب انھوں نے قتل کی دھمکیاں دیں تو انھوں نے رمضان کے آخری عشرے میں طالبان کو دو لاکھ روپے تاوان ادا کیا کیونکہ پولیس کے پاس جب جاتے ہیں تو اگلے ایک گھنٹے میں ان کو خبر پہنچ جاتی ہے کہ ہم پولیس کے پاس گئے تھے۔

واضح رہے کہ باجوڑ، مہمند، شمالی اور جنوبی وزیرستان میں اس وقت نہ صرف سکیورٹی فورسز پر حملوں میں تیزی آئی ہے بلکہ اس کے ساتھ ٹارگٹ کلنگز کا سلسلہ بھی جاری ہے اور کالعدم تنظیمیں سیاسی پارٹیوں کی مقامی لیڈر شپ، امن لشکر سے وابستہ عمائدین کو زیادہ تر نشانہ بنا رہی ہیں۔ جب کہ اس کے ساتھ ساتھ پاک افغان بارڈر کا علاقہ دتہ خیل اس وقت طالبان کے نشانے پر ہے اور سکیورٹی ماہرین کے مطابق ایسے حملے کرنا شدت پسند تنظیموں کے لئے آسان ہوتے ہیں کیونکہ ایک طرف بارڈر کا ایک وسیع علاقہ ہے اور دوسری جانب اپنی موجودگی کا احساس دلانا ہے۔

کچھ سکیورٹی ماہرین کے مطابق کالعدم انتہا پسند تنظیمیں کرونا وائرس کے وبا کے ماحول کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر سکتی ہیں جس سے امنِ عامہ کی صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔ بظاہر ایسے شواہد ہسایہ ملک میں مل بھی رہے ہیں۔ افغانستان میں جہاں کچھ ہفتے پہلے کابل میں زچہ بچہ مرکز اور ایک جنازے کو نشانہ بنانے کے بعد بظاہر امن سے وابستہ امیدیں دم توڑتی نظر آ رہی ہیں اور ملک کے صدر اشرف غنی نے افغان فورسز کو طالبان کو نشانہ بنانے کے احکامات بھی دیے تھے لیکن اب معاملات کو پھر سے ٹھنڈا کرنے کی کوشش جاری ہے۔



سکیورٹی امور کے ماہر اور مصنف محمد عامر رانا نے نیا دور میڈیا کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بظاہر ضم شدہ اضلاع میں امن و امان کی جو صورتحال ہے وہ تسلی بخش نہیں اور نہ ہی ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہاں مکمل امن ہے کیونکہ قبائلی اضلاع خصوصاً شمالی اور جنوبی وزیرستان مسلسل دہشتگرد تنظیموں کے نشانے پر ہیں اور ایسا لگ رہا ہے کہ دہشگرد تنظیمیوں سے وابستہ اہلکار اپنے علاقوں کو نشانہ بنا کر اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ تحریک طالبان پاکستان نہ صرف اپنی موجودگی کا احساس دلا رہی ہے بلکہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے آپریشنز کو بھی دوام دے رہے ہیں تاکہ یہ تاثر دیں کہ تاحال وہ یہاں موجود ہیں جب کہ اس کے ساتھ ساتھ تحریک طالبان پاکستان سے علیحدگی اختیار کرنے والی جماعت الاحرار باجوڑ اور اورکزئی میں بھی منظم ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ بظاہر ایسی اطلاعات آ رہی ہیں کہ حکومت نے وزیرستان کے شدت پسندوں کو معافیاں دی ہیں جنھوں نے تشدد کا راستہ چھوڑا ہے مگر قبائلی اضلاع میں انتقام ایک مضبوط روایت ہے، اس لئے وہاں کے لوگوں اس بات پر راضی ہونے کے لئے تیار نہیں۔ عامر رانا نے مزید کہا کہ جب شدت پسند تنظیمیں واپس اپنے آپریشنز زونز اور علاقوں کا رُخ کرتی ہیں تو پھر مختلف تبدیلیاں آتی ہیں۔ جیسے کہ ان ہی اضلاع میں لوگوں سے بھتے مانگنا وغیرہ شامل ہے۔ جب بھتوں کا سلسلہ تیز ہوا ہے تو زمینی حقائق یہی بتاتے ہیں کہ وہاں پر شدت پسند تنظیمیں اپنا وجود قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔