جرگے کا حکم نہ ماننے پر اے این پی رہنما کے گھر کی مسماری: جنوبی وزیرستان میں پولیس اور انتظامیہ غیر قانونی جرگے کے سامنے بے بس

جرگے کا حکم نہ ماننے پر اے این پی رہنما کے گھر کی مسماری: جنوبی وزیرستان میں پولیس اور انتظامیہ غیر قانونی جرگے کے سامنے بے بس
خیبر پختون خوا میں ضم شدہ سابق قبائلی علاقے ضلع جنوبی وزیرستان میں امن و امان کے مخدوش صورتحال اور سویلین اور سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں تیزی کے بعد احمد زئی وزیر کے ایک جرگے نے امن و امان کو برقرار رکھنے کے لئے وانا کی سیکیورٹی  امن کمیٹیوں کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کے رد عمل میں عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے کارکن ایاز وزیر اس کی مخالفت میں نکل آئے اور جرگے کے فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ جب علاقے میں پولیس، انتظامیہ اور دیگر فورسز موجود ہے تو وانا کی سیکیورٹی کیسے امن کمیٹیوں کے سپرد کی جاسکتی ہے۔ جس پر ردعمل دیتے ہوئے جرگے نے  گزشتہ اعلان کیا کہ  جرگے کے حکم کو نہ ماننے اور انتشار کا باعث بننے کی سزا کے طور پر عوامی نیشنل پارٹی کے ایاز وزیر کے گھر کو قبائلی روایات کے مطابق مسمار کیا جائے گا۔ جبکہ ایاز وزیر پر 10 لاکھ جرمانہ بھی عائد کیا گیا تھا۔ طے پایا تھا کہ   ایاز وزیر کے گھر کی مسماری کے لیے 6 جون کو بمقام کڑی کوٹ پر دوباہ جرگہ  کے بعد ڈھول کی تھاپ پر ایاز وزیر کے گھر پر دھاوابول دیا جائیگا۔

یاد رہے کہ ایف سی آر کے خاتمے کے بعد اب اجتماعی ذمہ داری کا قانون ختم ہوچکا ہے اور جرگہ اور اسکے فیصلے غیر قانونی  اور انگریز دور کے کالے قانون کے تحت ہونے والا ایک عمل تھے جس کی اب کوئی قانونی حیثیت نہیں۔

اس حوالے سے آج جنوبی وزیرستان وانا بازار میں اعلانات کیئے جاتے رہے کہ  کہ آج تین بجے تک بازار بند رہے گا.اگر کسی نے دوکان بند نہیں کی تو اس کو ایک لاکھ روپے جرمانہ کیا جائے گا۔ جبکہ پولیس اور انتظامیہ نے اس تمام کارروائی میں کوئی خلل ڈالنے کی ہمت نہیں کی۔ 

وانا سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق جرگے نے آج ایک بار پھر  ایاز وزیر کے گھر کی مسماری کے فیصلہ کی منسوخی کو اپنے عمل پر قوم سے معافی مانگنے  سے مشروط کیا۔  DPO وانا  کے ساتھ کیمپ میں موجود آیاز وزیر نے صاف انکار کردیا ہے کہ جب انہوں نے غلطی کی نہیں تو معافی کیوں مانگیں؟  اس موقع پر انکا کہنا کہ انہوں نے صرف یہ کہا کہ کالے شیشوں والی گاڑیوں کو سب کے لئے ختم کرنا ہوگا، اگر مالکان یا کمانڈران صاحبان کے لئے اجازت ہوگی اور عوام کے لئے نہیں ہوگی تو ایسا پھر نہیں چلیگا۔ دوسرا  یہ کہ وہ پولیس کو بے اختیار نہیں کرنے دینگے۔ انکا کہنا تھا کہ یہ اگر قانون و آئین کے مطابق غلطیاں ہیں تو معافی مانگ لیں گے  لیکن اگر قانون کے مطابق غلطیاں نہیں تو ہرگز معافی نہیں مانگیں گے۔

ایاز وزیر کی جانب سے جرگے سے معافی مانگنے سے انکار کے بعد  پانچ سو کے قریب ایلیٹ فورس کے جوانوں نے ایاز وزیر کے گھر کے کو تحفظ فراہم کرنے کے لیےپہنچے  اور ڈی پی او پولیس نے جرگے کو سخت ترین احکامات دیئے کہ اگر ایاز وزیر کی گھر کی طرف پیش قدمی کی تو سخت ایکشن ہوگا۔ تاہم ساتھ ہی
وانا ڈی پی او پولیس اور ضلع انتظامیہ نے ایاز وزیر پر جرگے کی توہین کرنے پر دس لاکھ روپے جرمانہ عائد کرتے ہوئے ایک چھ رکنی کمیٹی تشکیل دے دی جس میں انتظامیہ اور ملکان شامل ہیں باقی معاملات کو دیکھیں گے۔

تاہم  قانون اور آئینی ترمیم کے مطابق  پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے یہ جرمانہ قانون کی خلاف ورزی ہے  کیوں کہ جب قبائلی اضلاع کو  صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کیا گیا تو انصاف کی فراہمی صرف اور صرف  آئینی عدالتوں سے منسوب ہے۔ اس لئے تمام قسم کے جرگے غیر قانونی ہیں اور اس لحاظ سے  جس جرگے کی توہین کی وجہ سے یاز وزیر پر 10  لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا گیا اس جرگے کے خلاف ایف آئی آر کاٹنا انتظامیہ اور پولیس کی قانونی ذمہ داری تھی۔ 

بجائے اس کے کہ ایک غیر قانونی جرگے کے اہتمام پر اسکے منتظمین کے خلاف کارروائی ہوتی ڈپٹی کمشنر وانا نے سرکار کی طرف سے ایاز وزیر پر عائد 10 لاکھ روپے جرگے کو ادا کرے گی ۔

 

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔