ڈاکٹروں میں کرونا کا خوف،سروسز ہسپتال میں علاج بروقت نہ ہونے پر نوجوان ڈاکٹر سلمان افتخار کی موت: 'ساتھی ڈاکٹر کا یہ حال تو عام مریض کا کیا بنے گا؟'

ڈاکٹروں میں کرونا کا خوف،سروسز ہسپتال میں علاج بروقت نہ ہونے پر نوجوان ڈاکٹر سلمان افتخار کی موت: 'ساتھی ڈاکٹر کا یہ حال تو عام مریض کا کیا بنے گا؟'
کرونا وائرس کا خوف اس وقت پاکستان میں ہر ذی روح کو جکڑے ہوئے ہے۔ عام آدمی اس سے پریشان ہے لیکن اب یہ خوف ڈاکٹرز اور نرسز میں سرائیت کر رہا ہے اور اس کی وجہ سے ہی ایک مبینہ غفلت کا کیس سامنے آیا ہے جس میں ایک ڈاکٹر کی  موت  ڈیوٹی ڈاکٹرز میں پائے جانے والے کرونا کے خوف کے باعث اسے بروقت علاج نہ مہیا ہونے کی وجہ سے واقع ہوگئی ہے۔

تفصیلات کے مطابق یہ واقعہ سروسز ہسپتال لاہور میں پیش آیا ہے جہاں ڈاکٹر سلمان جنہوں نے ایم بی بی ایس بھی سروسز انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز سے کر رکھا تھا ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹرز کی جانب سے  انکے علاج  میں تاخیر کی مبینہ سنگین غفلت کی وجہ سے ہلاک ہو گئے ہیں۔  علاج میں تاخیر کی وجہ ڈاکٹروں کا مریض ڈاکٹر سلمان کے کرونا میں مبتلا ہونے کے شبہ کو بتایا جا رہا ہے۔

ڈاکٹر سلمان افتخار جو کہ امراض قلب میں سپیشلائزیشن کر رہے تھے سے متعلق جمعرات کو میڈیا پر یہ خبریں گردش کر رہی تھیں کہ انہیں کرونا آئی سی یو میں وینٹیلیٹر دستیاب نہیں ہے۔ تاہم نیا دور کو ملنے والی معلومات کے مطابق ڈاکٹر سلمان سروسز ہسپتال کی ایمرجنسی میں بدھ کی رات 11 بجے پیٹ میں شدید درد اور سانس لینے میں دشواری کی شکایت کے ساتھ پیش ہوئے۔ انہوں نے وہاں پر موجود نرسز کو  اپنی حالت کے متعلق آگاہ کیا ، انہوں  نے تشویشناک حالت ہونے کے باوجود نرسوں کو  ان کے اس وقت کے علاج میں معاون ادوایات کے بارے میں ہدایات بھی دیں۔ انہوں نے بار ہا یہ بتایا کہ انہیں کرونا نہیں ہے کیونکہ انکا ٹیسٹ ہوچکا ہے جس کی رپورٹس منفی ہیں تاہم ان کے پاس اسکا دستاویزی ثبوت موقع پر موجود نہ تھا۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ وہ اپنی حالت کےبارے میں فاروق ہسپتال سے تشخیص کروا کر تشخیصی نسخہ ساتھ لائے تھے۔ اور موقع پر موجود ڈاکٹرز کو اس بارے میں مطلع بھی کیا تھا۔ وہ فاروق ہسپتال میں میڈیکل آفیسر کے طور پر کام کر رہے تھے۔ مبینہ طور پر انہوں نے سروسز ہسپتال کا چناؤ اس لئے کیا کیونکہ وہ سمجھ رہے تھے کہ یہاں انہیں 'اپنا سٹوڈنٹ' ہونے کے ناطے سب جانتے ہیں ان کے علاج میں دشواری نہیں ہوگی۔ 

اس وقت ڈیوٹی پر موجود ایک ڈاکٹر نے  نیا دور کو بتایا کہ انہیں آنتوں کی سوزش کی شکایت تھی اور ان کی تشخیص کے مطابق لیپروٹمی نامی سرجری درکار تھی۔ تاہم ایمرجنسی سے انہیں سرجیکل یونٹ بھیجا گیا۔ جس کے بعد انہیں  میڈیکل یونٹ میں بھیجا گیا۔ ان کو وہاں 2 سے زائد گھنٹے رکھنے کے بعد کہا گیا کہ یہ تو کیس ہی سرجری کا ہے۔ جس کے بعد انہیں سرجیکل یونٹ S1 بھیج دیا گیا۔ اس سرجیکل یونٹ کے ایک ڈاکٹر کے مطابق سٹینڈرڈ عملی طریقہ کار یہی ہے کہ پیٹ میں سخت تکلیف کے مریض کی سرجری 25 منٹ میں کر دی جائے تاہم اسے 20 گھنٹے تک لٹکایا گیا۔

سروسز ہسپتال کے اس سرجری کے یونٹ کے سربراہ خود پرنسپل ڈاکٹر محمود ایاز ہیں۔ یہاں بھی انکے ممکنہ کرونا کے مریض ہونے کے سبب طویل انتظار کے بعد ان کی سرجری کی گئی تاہم تب تک انکی آنت پھٹ چکی تھی اور وہ قومہ میں جا چکے تھے۔ وہ کم از کم 30 گھنٹے سے زائد وینٹی لیٹر پر رہے جس کے بعد انکا انتقال ہوگیا۔

نوجوان ڈاکٹر کی اسی ہسپتال میں موت ہوئی جہاں انہوں نے 5 سال سے زائد کا عرصہ گزارا تھا۔ وہ امریکا کا میڈیکل ایگزام پاس کر چکے تھے تاہم انہوں نے سپیشلائزیشن کے لئے پاکستان کو چنا اور آج کل علامہ اقبال میڈیکل کالج سے اپنی تعلیم جاری رکھے ہوئے تھے جبکہ جناح ہسپتال میں تعینات تھے۔ ڈاکٹر سلمان کی  موت کے بعد سروسز ہستال اوردیگر ہسپتالوں کے ڈاکٹروں میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔  اس حوالے سے سوشل میڈیا پوسٹس میں کہا گیا ہے کہ ہسپتال انتظامیہ اور وائی ڈی اے مل کر ڈاکٹر سلمان کی موت کے ذمہ دار ڈاکٹرز کو بچائیں گے۔ ایک پوسٹ میں تو یہاں تک کہا گیا کہ ہماری اطلاعات کے مطابق ریکارڈ ٹیمپر کیا جانے لگا ہے اور نئی فائلز کو بنا دیا گیا ہے۔ 

نیا دور نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کئے جانے والے وہ وٹس ایپ سکرین شاٹس بھی دیکھے ہیں جہاں سروسز ہسپتال کےڈاکٹروں نے اس غفلت کی کہانی کو بیان کیا اور سوال اٹھایا ہے کہ اگر کرونا کے خوف کی وجہ سے ہمارا ساتھی علاج سے محروم رہ سکتا ہے تو پھر مریضوں کا کیا حال ہوگا؟ یہ پوسٹس بعد میں ڈیلیٹ کر دی گئیں۔

  ڈاکٹر سلمان افتخار کے بیچ میٹس کی جانب سے واقعہ کی آزادانہ انکوائری کے لئے پرنسپل سروسز انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز ڈاکٹر محمود ایاز کو درخواست بھی دی گئی ہے جس میں کہا گیا کہ اس کی تحقیقات ہونی چاہئیں کہ آیا ایمرجنسی میں کس نے غفلت برتی جب ڈاکٹر سلمان پیٹ میں شدید درد کے ساتھ پیش ہوئے؟

اب تک کی اطلاعات کے مطابق ڈاکٹر سلمان کو ٹائفائڈ تھا جس کے باعث انکی آنت پھٹ گئی۔ وائی ڈی اے کی جانب سے تاحال کوئی موقف سامنے نہیں آیا.

پرنسپل سمز(سروسز انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز) کے دفتر سے رابطہ کیا گیا تو پرنسپل تو دستیاب نہ تھے۔ لیکن ترجمان پرنسپل آفس کا  کہنا تھا کہ تاحال اس حوالے سے کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی مگر واقعہ پرنسپل آفس کے نوٹس میں ہے اور طے شدہ ضابطہ کار کے تحت اسکی انکوائری ضرور ہوگی۔ جس کے لئے پرنسپل سمز کی جانب سے ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جس کے کنوینئر سمز کے وائس پرنسپل اور سروسز ہسپتال کے شعبہ ای این ٹی کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر محمد امجد ہوں گے۔



اس وقعہ سے متعلق سروسز ہسپتال کی ڈاکٹر کمیونٹی کی فیسبک پوسٹس کے نیچے کومنٹس میں سب سے زیادہ یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ اپنے ساتھی ڈاکٹر کو محض کرونا کے شبے میں بے یار و مددگار چھوڑنے والے عام مریضوں کے ساتھ کیا کرتے ہوں گے؟

 

اس موقع پر یہ اطلاعات بھی سامنے آرہی ہیں کہ ڈاکٹر سلمان کو انکے  مبینہ ٹیسٹ رپورٹ کی ہارڈ کاپی مہیا نہیں کی گئی تھی تاہم یہ سامنے نہیں آسکا کہ انہوں نے یہ ٹیسٹ کس لیب سے کرایا تھا۔ انکے ساتھی ڈاکٹروں کی جانب سے غم و غصے کاشدید اظہار کیا جا رہا ہے۔