اکنامک سروے 2020: شرح نمو منفی، فی کس آمدنی 23 ہزار روپے کم، سرمایہ کاری منفی 21 فیصد،قرضوں میں ہوش ربا اضافہ

اکنامک سروے 2020: شرح نمو منفی، فی کس آمدنی 23 ہزار روپے کم، سرمایہ کاری منفی 21 فیصد،قرضوں میں ہوش ربا اضافہ
11 جون کو حکومتِ پاکستان نے Economic Survey 2020 پیش کیا۔ یہ سروے معیشت کی سالانہ کارکردگی کی ایک اہم دستاویز ہوتا ہے جو کہ بجٹ اور دیگر حکومتی پالیسیوں کو مرتب کرنے میں انتہائی مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اس سروے کا لب لباب یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت ایک بدترین صورتحال سے دو چار ہے اور 1950 کی دہائی کے بعد پہلی بار پاکستان کی معیشت سکڑ رہی ہے۔

کرونا وائرس سے قبل معیشت کی صورتحال

کرونا وائرس کی عالمی وبا نے یوں تو دنیا کے ہر ملک پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں اور بہت سی معیشتیں مشکل صورتحال سے دو چار ہیں لیکن پاکستان کا قصہ کچھ الگ ہے۔ کرونا وائرس کی وبا پھیلنے سے قبل پاکستان کی معیشت گراوٹ کا شکار تھی اور شرح ترقی کم ہو کر ایک یا دو فیصد کے درمیان رہ گئی تھی جب کہ مہنگائی اپنے عروج پر تھی۔ جنوری 2020 مہنگائی کے اعتبار سے ایک مشکل ترین مہینہ تھا جب اشیا ضرورت 30 سے 40 فیصد تک مہنگی ہو چکی تھیں۔

موجودہ حکومت اس صورتحال کا ملبہ پچھلی حکومتوں، بالخصوص مسلم لیگ نواز کی حکومت پر ڈالتی رہی لیکن پاکستان کے اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس میں حکومت کی اپنی نااہلی اور آئی ایم ایف جیسے عالمی مالیاتی اداروں کے آگے گھٹنے ٹیکنے کی وجہ سے پاکستان کے عوام پر ناقابلِ برداشت ٹیکسوں اور مہنگائی کا بوجھ ڈالا گیا۔ کرونا وائرس کی آمد کے بعد صورتحال مزید بگڑی اور چند ہفتوں کے لاک ڈاؤن نے مزید لاکھوں افراد کو بے روزگار کر دیا۔ اسی زبوں حالی کا نقشہ پاکستان اکنامک سروے کی رپورٹ میں موجود ہے جہاں پہ تلخ حقائق لیپا پوتی کے باوجود چیخ چیخ کر عوام اور ریاست کے درمیان ٹوٹے ہوئے رشتے کی روداد بیان کرتے ہیں۔

شرح ترقی 70 سال میں پہلی بار منفی

مالی سال 2019-20 کے درمیان پاکستان کی شرح ترقی منفی اعشاریہ 4 رہی۔ یہاں منفی سے مراد صفر سے بھی نیچے کی ترقی ہے۔ کسی بھی معیشت کے لئے گروس ڈومیسٹک پروڈکٹ یا جی ڈی پی اس ملک کی مجموعی آمدنی اور پیداوار کا اندازہ ہوتا ہے۔ جب مجموعی آمدنی اور پیداوار صفر سے نیچے گر جائیں تو یہ ایک خطرناک علامت ہوتی ہے کیونکہ روزگار کے مواقع بند ہو جاتے ہیں، صنعتیں ٹھپ ہو جاتی ہیں اور لوگوں کا جینا محال ہو جاتا ہے۔

فی کس آمدنی 23 ہزار روپے سالانہ کم ہو گئی

پچھلے مالی سال میں ہر پاکستانی کی آمدنی کم ہوئی ہے۔ فی کس آمدنی کا تخمینہ مجموعی پیداوار اور آبادی کے حساب سے لگایا جاتا ہے اور پاکستان کی تاریخ میں کوئی ایسا وقت نہیں رہا جب فی کس آمدنی گری ہو۔ معاشی سروے کے مطابق پاکستان میں سالانہ فی کس آمدنی 23 ہزار روپے کم ہوئی۔ اس کا اثر شاید متمول طبقے پر تو کم پڑے لیکن پاکستان کی اکثریت غریب ہے اور اتنے بڑے مالی نقصان کی متحمل نہیں ہو سکتی کیونکہ ملک کی اکثریت ماہانہ آمدنی کھانے پینے کی اشیا پر صرف کرتی ہے۔

سرمایہ کاری منفی 21.6 فیصد

ملکی معیشت کے لئے سرمایہ کاری ایک کلیدی حیثیت رکھتی ہے اور پچھلے سال سرمایہ کاری اتنی کم ہوئی کہ اس کی شرح بھی منفی 21.6 فیصد ہو گئی۔ حکومتی اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ صرف کرونا وائرس کی وجہ سے 3 کھرب روپے کا نقصان ہوا۔ پاکستان میں حکومتیں اعداد و شمار کو صحیح طریقے سے پیش نہیں کرتیں کیونکہ اس سے ان کی معاشی کارکردگی کا پول کھلنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی اداروں کے مطابق شرح ترقی منفی اعشاریہ 4 سے بھی کم ہے اور اسی وجہ سے مشیر خزانہ نے کہا کہ عالمی بینک کے مطابق پاکستان کی اصل شرح ترقی منفی 2.6 فیصد رہی ہے۔

قرضوں میں ہوشربا اضافہ، قانون کی خلاف ورزی بھی ہونے لگی

پی ٹی آئی کی حکومت نے پچھلے سال 35.2 کھرب روپے کے قرضے لیے اور اب پاکستان کے کل قرضے جی ڈی پی یا معیشت کا 88 فیصد ہیں۔ یاد رہے کہ قانون کے مطابق یہ شرح 60 فیصد سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔

ٹیکس وصولی میں بھی کمی

معاشی تنزلی کے سبب ٹیکسوں کے حصول میں بھی گراوٹ ہی رہی اور ٹیکسوں کی وصولی کا ہدف جو کہ 4.7 کھرب تھا، وہ بھی پورا نہ ہو سکا۔ یوں تو ترقیاتی منصوبے سال بھر کھٹائی میں ہی رہے لیکن کرونا وائرس کی وجہ سے ایک اچھا کام یہ ہوا کہ احساس پروگرام کے تحت 192 ارب روپے ایک کروڑ افراد میں بانٹے گئے جو سلسلہ آنے والے سال میں بھی جاری رہے گا۔

برآمدات کا ہدف حاصل نہ ہو سکا

برآمدات کا ہدف بھی حاصل نہ ہو سکا جو کہ ملکی معیشت اور زرِ مبادلہ کمانے کے لئے بہت اہم ہوتا ہے۔ برآمدات اپریل 2020 سے تقریباً آدھی ہو چکی ہیں اور کرونا وائرس کا اثر درآمدات پر بھی ہوا لیکن پاکستان پٹرولیم مصنوعات کی درآمدات کو کم نہیں کر سکتا کیونکہ پورا ملک درآمد شدہ تیل پر ہی چلتا ہے۔ اس لئے زرِ مبادلہ کی ضرورت کم نہیں ہوتی۔

زرعی شعبے میں بہتری لیکن صنعت اور سروسز میں شدید مندی

ایک مثبت چیز یہ ہوئی کہ زرعی شعبہ ترقی کرتا رہا۔ اگرچہ اس کا ہدف 3.5 فیصد رکھا گیا تھا لیکن ترقی کی رفتار محض 2.6 فیصد رہی۔ جب کہ صنعتی شعبہ منفی 2.6 فیصد اور سروسز کا شعبہ منفی 3.4 فیصد کمی کے ساتھ ملک کی معیشت کے لئے انتہائی بھاری ثابت ہوئے۔ صنعت اور سروسز کے شعبہ جات ملک میں روزگار پیدا کرنے کے لئے سب سے اہم ہیں اور ان کی گراوٹ پاکستان میں لاکھوں نوجوانوں کے لئے بری خبر ہے، کیونکہ اس شرحِ تنزلی سے صفر تک پہنچنے میں بھی ایک یا دو سال درکار ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ برس پاکستان میں بیروزگاری کی شرح تاریخی اعتبار سے سب سے زیادہ ریکارڈ کی گئی۔ اور اب سرکاری اعداد و شمار جو کہ صورتحال کو قدرے بہتر بنا کر پیش کرتے ہیں، ان کے حساب سے بھی پاکستان میں اس وقت 8 سے 9 فیصد افراد بیروزگار ہیں۔

کیا مستقبل قریب میں صورتحال میں بہتری کا امکان ہے؟

اس خطرناک صورتحال سے عوام کو بچانے کے لئے آپشنز بہت کم ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت نے ابھی تک ایسی کوئی پالیسی نہیں بنائی جس سے سرکاری اخراجات، خصوصاً غیر ترقیاتی اخراجات کو کم کیا جائے۔ دفاعی بجٹ میں کمی کا کوئی امکان نہیں۔ اسی طرح افسر شاہی پر خرچ کیے جانے والے اربوں روپے بھی کم نہیں ہوں گے۔ دنیا بھر میں معاشی ابتری کے باعث پاکستان کی برآمدات میں بھی اضافہ ہوتا دکھائی نہیں دیتا اور حکومت کی نااہلی جس کے قصے اب زبان زدِ عام ہیں، آنے والے دنوں اور سالوں میں عوام پر مزید مصائب کا باعث بنے گی۔

مصنّف نیا دور میڈیا کے مدیرِ اعلیٰ ہیں۔ اس سے قبل وہ روزنامہ ڈیلی ٹائمز اور فرائڈے ٹائمز کے مدیر تھے۔ ایکسپریس اور کیپیٹل ٹی وی سے بھی منسلک رہ چکے ہیں۔