فوجی عدالتوں سے سزایافتہ 200 ملزمان کی رہائی کا حکم

فوجی عدالتوں سے سزایافتہ 200 ملزمان کی رہائی کا حکم
پشاور ہائی کورٹ نے فوجی عدالتوں سے دہشت گردی کے مختلف الزامات کے تحت سزا پانے والے 200 قیدیوں کی اپیلوں کو منظور کرتے ہوئے انہیں عدم ثبوت کی بنا پر بری کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے۔

یہ احکامات منگل کو پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس محمد نعیم انور پر مشتمل دو رکنی بیچ نے سزا کے خلاف دائر 301  جیسی اپیلوں کی سماعت کرتے ہوئے جاری کی۔ رہائی پانے والے قیدیوں میں سزائے موت، عمر قید اور دس سال قید کی سزا یافتہ ملزمان شامل ہیں۔

ان کیسوں میں ملزمان کی طرف سے پیروی کرنے والے سینئیر وکیل شبیر حسین گیگیانی کے مطابق عدالت عالیہ نے مـختصر فیصلے میں لکھا ہے کہ ملزمان کو غیر قانونی طورپر حراست میں رکھا گیا، ان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا گیا جب کہ مذکورہ مقدمات میں آئین کے آرٹیکل چار، آٹھ، دس، دس اے، بارہ، تیرہ اور پچیس کی سنگین خلاف ورزی کی گئی ہے۔ اسی وجہ سے ان کی رہائی کے احکامات جاری کیے گئے۔

فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ پشاور ہائی کورٹ کے فوجی عدالتوں سے متعلق فیصلے کو عالمی عدالت انصاف بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کے کیس میں پہلے ہی تسلیم کر چکی ہے۔

شبیر گیگیانی کے مطابق ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بنچ کے سامنے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ملزمان کے اقبالی بیانات ریکارڈ کرانے میں اس وجہ سے تاخیر ہوئی کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ ملزمان کی ذہن سازی کی جائے اور ان کے ذہنوں سے ’خواب جنت‘ کے تصور کو مٹایا جائے۔

عدالت عالیہ نے اس موقع پر 100 اس قسم کے مز ید اپیلوں میں ریکارڈ کی عدم دستیابی کی وجہ سے سماعت اگلی تاریخ تک ملتوی کر دی ہے۔

خیال رہے کہ نومبر 2018 میں دہشت گردی کے مختلف الزمات کے تحت گرفتار ملزمان کو دی گئی سزاؤں کو پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے معطل کیا گیا تھا لیکن بعد میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔

سپریم کورٹ کی طرف سے ان سزاؤں کی معطلی پر عمل درآمد روک دیا گیا اور پشاور ہائی کورٹ کو حکم دیا گیا کہ سزاؤں کے خلاف اپیلوں کو دوبارہ دیکھا جائے اور حکومت سمیت کیس میں دیگر فریقین کو سنا جائے۔

مصنف پشاور کے سینیئر صحافی ہیں۔ وہ افغانستان، کالعدم تنظیموں، ضم شدہ اضلاع اور خیبر پختونخوا کے ایشوز پر لکھتے اور رپورٹ کرتے ہیں۔