جب افتخار چوہدری کے خلاف صدارتی ریفرنس کی فائل میں ججوں کو گالم گلوچ سے بھرے کاغذات لف ہوگئے

جب افتخار چوہدری کے خلاف صدارتی ریفرنس کی فائل میں ججوں کو گالم گلوچ سے بھرے کاغذات لف ہوگئے
تیرہ برس پہلے تیرہ مارچ 2007 کو ملک کے معزول کر دیئے گئے چیف جسٹس سپریم جوڈیشل کونسل میں پیش ہوئے تو 5 رکنی اس 'عدالت' کے ایک کے سوا تمام رکن جج صاحبان ان کے احترام میں آٹھ کے کھڑے ہو گئے تھے کہ "ملزم" آخر کار ان پانچوں ججوں کا سینئر ساتھی تھا۔

جسے اس کے خلاف دائر کئے گئے صدارتی ریفرنس کی بنا پر عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا. سپریم جوڈیشل کونسل چیف جسٹس آف پاکستان ، چیف جسٹس کے بعد سپریم کورٹ کے اگلے دو سب سے سینئر ججوں اور ملک کی چاروں ہائی کورٹس کے دو سینئر چیف جسٹس صاحبان پر مشتمل ہوتی ہے۔

کونسل کا جو رکن اپنے معزول باس سے مبینہ نفرت کی بنا پر اس کی آمد پر بدستور اپنی کرسی پر بیٹھا رہا تھا وہ اس وقت کا چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ ، جسٹس افتخار حسین چوہدری تھا ، موجودہ وفاقی وزیر فواد چوہدری کا چچا وہ فواد چوہدری جس نے جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی مخالفت کی تھی اور وزیراعظم اور وفاقی کابینہ کے دیگر ارکان کو یہ سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ اعلیٰ عدلیہ کے کسی جج کے خلاف مقدمہ کرنے پر اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کا بالعموم کیا ری ایکشن ہوتا ہے۔ 

بتایا جاتا ہے کہ جسٹس چوہدری افتخار حسین چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری سے نفرت کرتے تھے اور اس ٹرائیکا کا حصہ تھے جو چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چوہدری کو عہدے سے ہٹانے کے حکومتی منصوبہ کی آرکیٹیکٹ تھی۔  اس تثلیث کے دیگر 2 ارکان میں اس وقت کے وفاقی سیکرٹری لاء ، لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) منصور احمد اور پنجاب کے وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی شامل تھے۔  چوہدری پرویز الٰہی اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ  بار اور بنچ میں 'جسٹس افتخار جہلمی ' کے نام سے مشہور تھے ، کے درمیان ویسے بھی بڑی دوستی تھی ۔

خیر ، سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک فوجی ڈکٹیٹر صدر کی طرف سے ملک کے معزول کردہ چیف جسٹس کے خلاف کارروائی شروع ہوچکی تھی اور ہر پیشی پر ان کے وکیل بیرسٹر اعتزاز احسن دھانسو دلائل دے رہے تھے کہ 12ویں پیشی کے اختتام پر 'کمرہ عدالت' سے نکلتے وقت چوہدری اعتزاز احسن نے اچانک اپنے مؤکل سے کہا "جسٹس صاحب ، فیصلہ آپ کے خلاف آرہا ہے" جسٹس افتخار محمد چوہدری نے حیرت سے کہا " وہ کیسے؟ چوہدری صاحب آپ تو زبردست argue کر رہے ہیں ، آج تو کمال کردیا آپ نے" تو اعتزاز احسن نے کہا " سپریم جوڈیشل کونسل کے 5 میں سے 3 جج تو سرے سے notes ہی نہیں لے رہے۔

وہ تو فیصلہ پہلے ہی لکھ چکے ہیں ، صرف رانا بھگوان داس اور جسٹس صبیح notes لیتے ہیں۔  آپ نے نوٹ نہیں کیا؟ میں پریوی کونسل کے فیصلوں کا حوالہ دے رہا ہوں اور ادھر انہوں نے صفحہ نمبر تک پوچھنے کی زحمت نہیں کی" اعتزاز احسن معزول چیف جسٹس کے اس وُکلاء پینل کو lead کر رہے تھے جس میں سابق اٹارنی جنرل قاضی انور اور جسٹس (ر) طارق محمود کے علاوہ آج جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہونے والے منیر اے ملک اور حامد خان جیسے ممتاز سینئر قانون دان شامل تھے۔ 

بہرحال سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی ایک آئینی پٹیشن کے ذریعے اسی طرح ملک کی سب سے بڑی عدالت میں چیلنج کر دی گئی جس طرح جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے چیلنج کی تھی ، تیرہ مارچ کو پہلی بار کٹہرے میں کھڑے کئے جانے والے معزول چیف جسٹس کی درخواست کی سماعت کے لئے ملک کی سب سے بڑی عدالت کے تیرہ ہی ججوں کا لارجر بنچ 2 جون کو سپریم کورٹ کے اسی کورٹ روم نمبر ون میں بیٹھا تھا جو تب بھی اسی طرح کھچا کھچ بھرا ہوا تھا کہ اس وقت ایک لمحے کے لئے کمرہ عدالت میں سناٹا چھا گیا۔

جب درخواست گزار "ملزم جج" کے وکیل چوہدری اعتزاز احسن نے بنچ کے سربراہ کو مخاطب کر کے کہا "مائی لارڈ ! میرے (یعنی میرے مؤکل کے) خلاف دائر کیا گیا ریفرنس قابل پذیرائی تو کیا ، قابل سماعت ہی نہیں۔  جسے بھیجتے ہوئے وزیراعظم نے پڑھا ہے نہ صدر پاکستان نے ، نہ اٹارنی جنرل نے ، نہ وزیر قانون نے ،سیکرٹری قانون نے اور نہ دائر کردیئے جانے کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل کے چیئرمین و دیگر ارکان نے ، حتیٰ کہ یہاں موجود حکومتی وکلاء شریف الدین پیرزادہ نے ابھی تک اسے پڑھا ہے نہ جسٹس (ر) ملک قیوم نے۔

جبکہ سپریم کورٹ 1993 میں نوازشریف حکومت کی بحالی کے فیصلے میں رولنگ دے چکی ہے کہ جس ڈاکومنٹ پر مائنڈ اپلائی نہ کیا گیا ہو ، اس کی بنیاد پر اٹھایا گیا اقدام باطل قرار پائے گا" بنچ میں شامل ججوں نے آپس میں سرگوشیاں شروع کر دی اور کمرہ عدالت میں شور بڑھنے لگا۔

تیرہ رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس خلیل الرحمٰن رمدے نے وکیل سے حیرت بھرے لہجے میں پوچھا " یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ ، کیا آپ ثابت کرسکتے ہیں کہ ریفرنس کسی نے آج تک پڑھا ہی نہیں؟" بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا " میں ابھی 2 منٹ میں ثابت کردیتا ہوں" کمرہ عدالت میں تجسس اور سسپنس کی فضا مزید گھمبیر ہوگئی . وکیل نے کہا آپ ذرا ریفرنس کے صفحہ نمبر (فلاں) پر پیرا نمبر 32 دیکھئے ، تمام ججوں نے اپنے سامنے رکھی کیس کی فائل میں ورق گردانی شروع کر دی . اعتزاز احسن نے کہا " پیرے کی جگہ آخر میں بس ایک لفظ لکھا ہے 'deleted' پھر پیرا نمبر 33 دیکھئے ، وہاں بھی خالی پیرا کے آخر میں صرف ایک لفظ deleted لکھا ہے .. کسی نے ریفرنس پر ایک نظر ڈال لی ہوتی تو ذرا سی زحمت کرکے کمپیوٹر سے پیرا نمبر 32 کو 31 اور پیرا نمبر 33 کو 32 کرواچکا ہوتا"۔

معزول چیف جسٹس آف پاکستان کے وکیل نے مزید کہا" مائی لارڈ ! اسی طرح کسی نے اس ریفرنس کے ساتھ بطور ثبوت و شواہد annex کئے گئے 375 صفحات کو ایک نظر دیکھنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔  مثال کے طور پر صفحہ نمبر 164 دیکھیں یہاں ایک پمفلٹ لف کردیا گیا ہے جس میں لکھا ہے 'صرف چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ ہی  نہیں۔  تمام ہائی کورٹس کے سارے جج اور سپریم کورٹ کے تمام جج بھی  ہیں (ججوں کے لئے گندی گالیاں اور انتہائی نازیبا و ناقابل بیان الفاظ درج تھے) چوہدری اعتزاز احسن نے کہا "مائی لارڈ ! دراصل یہ ریفرنس کے لئے بدنیتی کے ساتھ کہیں سے بھجوایا گیا ڈرافٹ ہے جسے عجلت میں دیکھے پڑھے بغیر ہی تیار شدہ ریفرنس سمجھ کر سپریم جوڈیشل کونسل بھجوا دیا گیا"۔

اس موقع پر شریف الدین پیرزادہ نے بنچ سے مخاطب ہو کر استدعا کی " وہ پمفلٹ غلطی سے ساتھ لگ گیا ہے ، اسے ہم واپس لے لیتے ہیں " مگر 13 رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس رمدے نے یہ کہتے ہوئے اس کی اجازت دینے سے انکار کر دیا " یہی تو ایک ثبوت ہاتھ آیا ہے آپ (حکومت) کی بدنیتی کا" اور ساتھ ہی ریفرنس خارج کرنے اور حکومت کو 1 لاکھ جرمانے کا حکم سنا دیا۔