اسلام آباد ہائیکورٹ نے چینی انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر عملدرآمد رکوانے کی درخواست مسترد کر دی

اسلام آباد ہائیکورٹ نے چینی انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر عملدرآمد رکوانے کی درخواست مسترد کر دی
اسلام آباد ہائیکورٹ نے چینی انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر عملدرآمد روکنے سے متعلق حکم امتناع ختم کرتے ہوئے شوگر ملز ایسوسی ایشن اور ملز مالکان کی جانب سے دائر درخواست کو مسترد کر دیا۔

یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 11 جون کو چینی سکینڈل کی تحقیقات کرنے والے شوگر کمیشن کی سفارشات جس میں ملز مالکان کے خلاف مجرمانہ مقدمے کے اندراج پر زور دیا گیا تھا، پر اس شرط کے ساتھ حکم امتناع جاری کیا تھا کہ وہ عام آدمی کو 25 جون تک 70 روپے کلو میں چینی فروخت کریں گے۔

شوگر کمیشن کی رپورٹ کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے والے درخواست گزاروں میں پاکستان شوگر ملز ایوسی ایشن، جہانگیر ترین اور ان کے بیٹے کی زیر ملکیت شوگر ملز، سلیمان شہباز شریف، مخدوم عمر شہریار، پاکستان تحریک انصاف کے رہنما سردار علی رضا خام دریشک اور دیگر شامل تھے۔

وفاقی دارالحکومت کی عدالت عالیہ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے شوگر ملز ایسوسی ایشن کی درخواست پر سماعت کی، جہاں اٹارنی جنرل برائے پاکستان خالد جاوید خان و دیگر فریقین کے وکلا پیش ہوئے۔

دوران سماعت اٹارنی جنرل نے کہا کہ کمیٹی میں انٹرسروسز انٹیلیجنس کے رکن کی شمولیت پر اعتراض آیا تھا، میں اس کی وضاحت کر دوں، آئی ایس آئی کے رکن کو کمیٹی میں شامل کرنے کا نوٹیفکیشن 25 مارچ کا ہے۔ اس موقع پر خالد جاوید خان نے پاناما کیس اور جعلی اکاؤنٹ کیس کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ ان دونوں کیس میں جے آئی ٹی تشکیل دی گئی، پاناما جے آئی ٹی میں مختلف اداروں کے افسران کو شامل کیا گیا، یہ وجہ تھی کہ شوگر انکوائری کمیشن میں حکومت نے تحقیقات کے لیے مختلف اداروں کے افسران شامل کیے۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ یہ کہنا غلط ہوگا کہ انکوائری کمیشن سیاسی مخالفین سے انتقام کے لیے بنایا گیا، انکوائری تو حکومت کے اپنے مضبوط اتحادیوں اور دوستوں کےخلاف بھی ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپنے دوستوں اور اتحادیوں کے خلاف کارروائی کے لیے بڑی جرات اور عزم چاہیے، دوستوں اور اتحادیوں کے خلاف کارروائی بھی ثبوت ہے کہ یہ کسی تعصب پر مبنی کارروائی نہیں۔

اٹارنی جنرل کی بات کے بعد ملز مالکان کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ چینی کیس کاروباری افراد کے بنیادی آئینی حقوق کا مقدمہ ہے۔

سماعت کے دوران عدالت عالیہ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے یہ سوال کیا کہ معاملے میں متعلقہ تو کابینہ ہے، معاون خصوصی نے کیا کوئی الگ فیصلہ کیا؟ جس کے جواب میں مخدوم علی خان نے کہا کہ کابینہ کا الگ اور معاون خصوصی کا الگ فیصلہ ہوا، شہزاد اکبر کو ذمہ داری دی گئی کہ وہ کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد کرائیں گے۔

اس پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ کیا کابینہ اپنے اختیارات کسی اور کو دے سکتی ہے؟ عدالت نے مسابقتی کمیشن کیس کے فیصلے میں کہا ہے کہ کابینہ اپنا اختیار کسی کو نہیں دے سکتی، جس پر خالد جاوید نے یہ جواب دیا کہ میں حکومت کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اس پر نظرثانی کرے۔

شوگر ملز ایسوی ایشن کے وکیل نے کہا کہ حکومت کی جانب سے شوگر ملز مالکان کو مافیا تک کہا جا رہا ہے، جو لوگ پہلے سے اپنی سوچ کا اظہار کرچکے ہیں، انہیں کارروائی جاری رکھنے کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے، جن اداروں کے لوگ خود انکوئری کمیشن میں بیٹھ کر رپورٹ لکھ چکے وہ اب تحقیقات کریں گے۔

انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ ٹرائل میں ساری عزت نفس، کاروبار مجروح ہونے کے بعد اپیل میں کہیں انصاف ملا بھی تو کیا ملا۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم جواب الجواب دلائل کے لیے آپ کو وقت دیتے ہیں لیکن حکم امتناع آج ختم ہوگا، جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ اگر حکم امتناع میں توسیع نہیں تو پھر آج ہی جواب الجواب دلائل سن لیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ آج ہی جواب الجواب دلائل دے لیں، میں دونوں طرف کا مؤقف سن چکا ہوں، جواب الجواب تو صرف ایک موقع ہوتا ہے کہ اگر آپ ہمارا ذہن بدل سکیں تو بدل لیں، آپ چاہیں تو پیر کو بھی آپ کو سن سکتے ہیں لیکن حکم امتناع ختم کر دیتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت شوگر انکوائری پر خود کوئی 'پِک اینڈ چُوز' نہیں کرنا چاہتی، حکومت نے اسی لئے معاملہ متعلقہ اداروں کو بھیج دیا ہے، نیب، ایف بی آر، ایس ای سی پی آزادانہ طور پر اس معاملے کو دیکھیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ادارے اپنے قانون کے مطابق دیکھیں گے کہ کس کے خلاف کیا کارروائی بنتی ہے، کمیشن رپورٹ تو اداروں کی صرف معلومات کے لیے ہے۔

سماعت کے بعد عدالت کی جانب سے پہلے فیصلہ محفوظ کیا گیا جسے بعد ازاں سناتے ہوئے چینی کمیشن رپورٹ پر کارروائی کے خلاف دائر درخواست کو خارج کردیا، جس سے چینی رپورٹ پر کارروائی کی اجازت مل گئی۔

عدالتی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ کمیشن کی سفارشات پر وفاقی کابینہ کی جانب سے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کو اپنے اختیارات تفویض کرنا سپریم کورٹ کے طے کردہ قانون سے مطابقت نہیں رکھتا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ قانون کے مطابق وفاقی حکومت کے پاس قومی احتساب آرڈیننس کے تحت نیب کو ریفرنس بھیجنے کا اختیار ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں چینی انکوائری کمیشن کی تشکیل درست قرار دی جبکہ حکومتی ارکان کو چینی کیس پر غیر ضروری بیان بازی سے روکتے ہوئے ہدایت دی کہ چینی کیس میں تمام فریقین منصفانہ ٹرائل کو یقینی بنائیں۔