جب سلیم صافی نے جنرل باجوہ کے سامنے جہانگیر ترین کے جہاز میں عمران خان کو گھمانے پر طنز کیا

جب سلیم صافی نے جنرل باجوہ کے سامنے جہانگیر ترین کے جہاز میں عمران خان کو گھمانے پر طنز کیا
 

جہانگیر ترین کے  تحریک انصاف سے آوٹ ہوجانے پر اب بھی سیاسی پنڈتوں کی چہ مگویاں جاری ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ جہانگیر ترین اتنی آصانی سے سب کچھ ہار نہیں دے گا۔ جبکہ ایک ٹولا ایسا بھی ہے جس سمجھتا ہے کہ جہانگیر ترین اب قصہ پارینہ ہو چکے یا کم از کم جب تک عمران خان زمام اقتدار سنبھالے ہوئے ہیں ان کے ہوتے ہوئے جہانگیر ترین کا کوئی سیاسی مستقبل نہیں۔

یہ سلسلہ تب سے جاری ہے جب جہانگیر ترین عدالت عظمیٰ کی جانب سے نا اہل ہوئے تھے۔ ایک رائے یہ پائی جاتی رہی کہ جہانگیر ترین کی نااہلی وزیر اعظم عمران خان کی اجازت سے ہوئی جس کا مقصد نواز شریف کی نا اہلی کے بعد بگڑنے والے توازن کو واپس بحال کرنا تھا۔ اب اس سمیت دیگر سیاسی مفروضوں اور قیاس آرائیوں پر  ملک کے معروف صحافی سلیم صافی نے مہر تصدیق ثبت کی ہے۔ 

سلیم صافی نے جنگ اخبار کے لئے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ جہانگیر ترین عمران خان پر اندھا اعتماد کرتے تھے اور انہوں نے کبھی یہ تصور بھی نہیں کیا تھا کہ عمران خان انکے ساتھ یہ سب کر دیں گے۔ انہوں نے ان کرداروں پر سے بھی پردہ اٹھایا ہے کہ جنہوں نے جہانگیر ترین کو طاقت کے ایوانوں سے دور لے جا کر پھینکا۔

سلیم صافی نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے جہانگیر ترین کو زبردست تنقید کا نشانہ بنایا ہے لیکن جہانگیر ترین کی جانب سے کبھی نہ شکوہ کیا گیا نہ ہی کوئی سخت اقدام کیا گیا۔

اس حوالے سے وہ اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں جب انہوں نے آرمی چیف کے سامنے جہانگیر ترین کو انکے جہاز اور اس سے عمران خان کے زیر استعمال ہونے کے حوالے سے طنز کیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ مسلم لیگ(ن) کی حکومت کے آخری دنوں میں کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے کوئٹہ میں سی پیک کے حوالے سے کانفرنس کا اہتمام کیا تھا جس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور کئی سیاسی رہنمائوں کو بھی دعوت دی گئی تھی۔ میں بھی اس میں بطور مقرر مدعو تھا لیکن اِن دنوں کابل میں تھا۔ وقت اتنا کم تھا کہ میں اگر اسلام آباد بذریعہ ہوائی جہاز آتا تو کوئٹہ بروقت کانفرنس کے لئے نہیں پہنچ سکا۔

دوسری طرف عاصم باجوہ بھائی کی تاکید ایسی تھی کہ انکار بھی ممکن نہیں تھا۔ چنانچہ میں قندھار تک ہوائی جہاز میں اور وہاں سے بذریعہ سڑک براستہ چمن، کوئٹہ پہنچا۔ رات کو عاصم سلیم باجوہ کے عشائیے میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، جہانگیر ترین اور کئی دیگر سیاسی رہنما بھی شریک تھے۔ میرے قندھار سے بذریعہ سڑک کوئٹہ آنے کے ایڈونچر کا آرمی چیف کو بھی علم ہوا تھا۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ صافی! سنا ہے آپ نے بڑی ایڈونچر کی۔

 میں نے جواب میں عرض کیا کہ سر! قندھار سے کوئٹہ کے لئے فلائٹ ہے نہیں اور میں کوئی عمران خان نہیں کہ جہانگیر ترین کےا سپیشل جہاز میں آتا۔ اس پر ساتھ کھڑے جہانگیر ترین نے جواب دیا کہ میرا جہاز آپ کے لئے بھی ہر وقت حاضر ہے۔  

وہ لکھتے ہیں کہ جہانگیر ترین اس محفل میں آرمی چیف کے بعد سب کی توجہ کا مرکز تھے میں نے ان سے عرض کیا کہ مستقبل کا حکمران سمجھ کر اس محفل میں لوگ آپ کے آگے پیچھے ہورہے ہیں لیکن اپنا اندازہ تو یہ ہے کہ بیلنس کرنے کے لئے آپ کو قربانی کا بکرا بنایا جارہا ہے اور آپ کے پیارے لیڈر بھی آن بورڈ نظر آتے ہیں۔ وہ نہیں مان رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ صافی بھائی! آپ خواہ مخواہ خان صاحب کے بارے میں بدگمان ہیں۔

  جہانگیر ترین مزید گویا ہوئے۔ خان صاحب اپنی نااہلی گوارا کرلیں گے لیکن میری نہیں کریں گے۔ بہرحال نااہلی کے بعد جب ہماری ملاقات ہوئی تو کوئٹہ کی محفل کا ذکر آیا۔ کہنے لگے کہ صافی بھائی! آپ کا اندازہ ٹھیک تھا لیکن میں اعتماد میں مارا گیا۔

وہ کہتے ہیں کہ آج جو جہانگیر ترین کے بارے میں باتیں کرتے پھر رہے ہیں کل وزیر بننے کے لئے جہانگیر ترین کے دروازے کے باہر گھنٹوں انتظار کرتے تھے۔

وہ کہتے ہیں سیاسی لوگوں کو تو چھوڑیں موجودہ پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے بھی عمران خان تک پہنچنے کے لئے ان کا روٹ استعمال کیا تھا۔ جہانگیر ترین نے ہی انہیں خان سے ڈائریکٹ کروا کر پہلے پختونخوا کا ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور پھر چیف سیکرٹری بنوا دیا۔  اور اسی افسر نے جہانگیر ترین کو آوٹ کرانے میں کردار ادا کیا۔

 

سلیم صافی لکھتے ہیں کہ اب ترین صاحب بخوبی جانتے ہیں کہ ان کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ زلفی بخاری، اسد عمر، خاتونِ اول، علی زیدی اور اعظم خان نے مل کر کیا لیکن نام صرف اعظم خان کا لیتے ہیں۔ لندن جانے سے قبل ان سے ملاقات ہوئی تو اعظم خان کے بارے میں کہہ رہے تھے کہ میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ یہ شخص میرے ساتھ ایسا کرےگا۔ 

سلیم صافی نے دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ روز جہانگیر ترین سے فون پر بات ہوئی۔ میں نے ازراہِ مذاق ان سے کہا کہ آپ تو میری صلح کرارہے تھے لیکن خود عمران خان کی حکومت میں ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ وہ ہنس دیے اورچپ رہے کیونکہ اب بھی کچھ لوگوں کا پردہ رکھنا چاہتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اصل محسنوں کے بارے میں خان صاحب کی یا پھر خان صاحب کے بارے میں ان کی رائے کب بدلتی ہے کیونکہ جہانگیر ترین کے ساتھ ایسا ہو سکتا ہے تو پھر کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں۔