’مسلمانوں کے محلّے میں کیوں گھر لیا‘ ندیم جوزف قتل کیس کے حقائق

’مسلمانوں کے محلّے میں کیوں گھر لیا‘ ندیم جوزف قتل کیس کے حقائق
اسلام آباد: خیبر پختون کے شہر پشاور کے ٹی وی کالونی کے 49 سالہ ندیم جوزف گذشتہ روز زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہر کے بڑے نجی اسپتال North West میں دم توڑ گئے۔ واضح رہے کہ ندیم جوزف کو 2 جون کو اپنے محلے میں کچھ بااثر افراد نے ان کی ساس اور سالے سمیت گولیاں ماری تھیں اور اس واقعے کی ایف آئی آر پشاور کے مقامی تھانے پشتخرہ میں درج کی گئی ہے۔

ندیم جوزف کی ویڈیو جو انھوں نے اسپتال سے ریکارڈ کی تھی میں انھوں نے کہا کہ میرا نام ندیم جوزف ہے اور میں نے کچھ عرصہ پہلے پشاور کے علاقے ٹی وی کالونی میں ایک گھر خریدا جس کی زیادہ رقم میں نے ادا کی تھی اور کچھ رقم رہتی تھی اور اس گھر میں میں منتقل ہوا۔ میرے گھر کے سامنے جو شخص رہتا تھا۔ وہ ایک غنڈہ تھا جس کے پاس اسلحہ بھی تھا اور وہ مجھے اپنے گھر بلا کر نوکروں کی طرح سلوک کرتا تھا اور وہ مجھے تشدد اور اپنے قتلوں کے واقعات سنایا کرتا تھا جب کہ پولیس ان کے سامنے بے بس تھی اور ان کے خلاف کارروائی نہیں کرتی تھی۔

انھوں نے مزید کہا کہ جس دن فائرنگ کا واقعہ پیش آیا اس دن انھوں نے اپنی بندوق نکالی اور میں چپکے سے ان کی ویڈیو بنا رہا تھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ جب ان کو معلوم ہوا کہ میں ان کی ویڈیو بنا رہا ہو تو انھوں نے مجھ پر تشدد شروع کیا اور پھر مجھ پر فائر کھول دیا۔ ندیم جوزف نے مؤقف اپنایا کہ وہ اسپتال میں بھی نہ صرف خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں بلکہ وہ اپنے بچوں کی سکیورٹی کے حوالے سے بھی پریشان ہیں۔

ندیم جوزف کے بہنوئی یاسر نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ ندیم جوزف کی عمر 40 سال کے لگ بھگ تھی اور وہ ایک ٹیکنیشن تھے جس کے بعد انھوں نے سرجیکل سامان کی ہول سیل کا کام شروع کیا اور وہ مختلف اسپتالوں کو ہول سیل پر سرجیکل سامان فروخت کرتے تھے۔ انھوں نے مزید کہا کہ جب ان کی مالی حالت تھوڑی بہتر ہوئی تو انھوں نے سواتی پاٹک کی ٹی وی کالونی میں ایک چھوٹا سا مکان خریدا اور واقعہ سے تقریباً دو ماہ قبل وہ اپنے نئے گھر میں منتقل ہوئے تھے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ندیم جوزف اکثر ان کو بتاتے تھے کہ سامنے والے گھر کے لوگ بہت بااثر اور غنڈے ہیں اور کبھی وہ گھر کے اندر پٹاخے پھینکتے ہیں تو کبھی تالوں میں ایلفی ڈالتے ہیں۔

یاسر نے کہا کہ واقعہ کے روز ندیم جوزف کی ساس یعنی میری ماں اور میرے بھائی بابر ان کے گھر گئے جس کے بعد میرے بہنوئی ندیم نے اپنے 16 سالہ بیٹے عبادش کو اپنی موٹر سائیکل پر بازار سے سامان لانے بھیجا اور واپسی پر محلے میں شور شروع ہوا۔ جب ندیم جوزف باہر نکلے تو وہ لوگ میرے بھانجے عبادش پر تشدد کر رہے تھے جس پر میرے بہنوئی کے ساتھ جھگڑا شروع ہوا اور انھوں نے فائرنگ کی جس سے ندیم جوزف کے پیٹ میں گولیاں لگیں اور میری ماں اور بھائی بھی زخمی ہوئے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہم نے ندیم جوزف کو پشاور کے بڑے سرکاری اسپتال لیڈی ریڈنگ منتقل کیا جہاں وہ ICU میں تھے اور ان کی حالات بگڑ رہی تھی۔ یاسر نے کہا جب ندیم جوزف کی حالات بگڑنے لگی تو ہم نے ان کو پشاور کے نجی اسپتال North West منتقل کیا جہاں پہلی سرجری کے بعد ان کی موت واقع ہو گئی۔

پشاور کے تحقیقاتی صحافی لحاظ علی جنہوں نے ندیم جوزف کے پورے واقعے کی کوریج کی، انھوں نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ یہ واقعہ موٹر سائیکل کے سلنسر سے شروع ہوا جس میں بعد میں بہت ساری بدگمانیاں پیدا ہو گئیں۔ انھوں نے کہا کہ ندیم جوزف کے بیٹے عبادش نے اپنی موٹر سائکل سے سلنسر نکالا تھا جس کی وجہ سے ان کے پڑوسی ان کو منع کرتے تھے کہ موٹر سائیکل سلنسر کے شور کی وجہ سے ہم ڈسٹرب ہو جاتے ہیں مگر یہ سلسلہ چلتا رہا اور پھر اخر میں یہ بات اس لڑائی تک پہنچ گئی۔

لحاظ علی ندیم جوزف کے اس دعویٰ سے اتفاق کرتے ہیں کہ جس بندے نے فائرنگ کی وہ واقعی میں ایک مقامی غنڈہ تھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ ندیم جوزف کے پڑوسیوں نے جب ان کے بیٹے عبادش کو کہا کہ یہ سلنسر ٹھیک کر لو تو انھوں نے ان کو جواب دیا کہ آپ کے گھر میں ٹیپ ریکارڈر کیوں تیز چلتا ہے اور اس کے بعد ہی یہ جھگڑا ہوا اور تین لوگ زخمی ہوئے۔ مگر لحاظ علی نے کہا کہ ایف آئی آر ایک مہینے پہلے درج ہوئی ہے اور اس ایف آئی آر میں اور نہ ندیم جوزف کے شروع کے بیانات میں کوئی بات سامنے آئی ہے کہ ان کو اس وجہ سے ٹارگٹ کیا گیا کہ وہ ایک مسیحی تھے یا مذہب کی کوئی بات تھی۔

تاہم، یاسر کا کہنا ہے کہ جس روز ان کے بھتیجے عبادش سودا لے کر آ رہے تھے تو پڑوسیوں نے ان کو کہا کہ آپ موٹر سائیکل کیوں تیز چلا رہے ہو جس پر انھوں نے مار پیٹ شروع کی مگر اس بات میں کوئی صداقت نہیں کہ میرا بھانجا موٹر سائیکل تیز چلا رہا تھا یا پھر انھوں نے سلنسر نکالا تھا۔ یاسر نے مؤقف اپنایا کہ موٹر سائیکل شوروم سے جس حالت میں لائی گئی اسی حالت میں تھی اور ان کے سلنسر میں کوئی شور نہیں تھا۔

خاندانی ذرائع نے نیا دور کو بتایا کہ جب ندیم جوزف نے اس علاقے میں گھر لیا تو اسی محلے دار نے ان سے پوچھا کہ وہ مسلمان ہیں یا مسیحی۔ جب ندیم نے انہیں بتایا کہ اس کا خاندان مسیحی ہے تو اس شخص کا جواب تھا کہ تم نے اس علاقے میں گھر کیوں لیا جب کہ یہ تو مسلمانوں کا محلہ ہے۔ اس کے بعد بھی یہ شخص بارہا ان کو پریشان کرتا رہتا تھا جس پر ندیم جوزف نے ایک بار تنگ آ کر اس سے پوچھا کہ تم ہمارے ساتھ ایسا کیوں کر رہے ہو۔ جس پر اس شخص کا جواب تھا کہ یہ تمہیں بہت جلد سمجھ آ جائے گی۔

نیا دور میڈیا نے تھانہ پشتخرہ کے اس کیس کے تفشیشی افسر ارشد خان سے جب اس حوالے سے رابطہ کیا تو انھوں نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ میڈیا میں رپورٹ ہو رہا ہے کہ ندیم جوزف نے یہ گھر خریدا تھا جس میں کوئی حقیقت نہیں۔ انھوں نے کہا کہ ندیم جوزف اس مکان میں کرائے پر رہ رہے تھے اور کچھ مہینے پہلے یہاں منتقل ہو گئے تھے اور ہم نے اس مکان کا مالک سے باقاعدہ بیان لیا ہے کہ یہ گھر ان کا ہے۔ تفشیشی افسر نے مزید بتایا کہ واقعہ کے روز ندیم جوزف کے بیٹے عبادش گلی میں موٹر سائیکل تیزی سے چلا رہے تھے جس پر مجرم سلیمان نے ان کو منع کیا کہ گلی میں موٹرسائیکل آہستہ سے چلاؤ کیونکہ گلی تنگ ہے اور بچے زخمی ہو سکتے ہیں اور ظاہر سی بات ہے کہ انھوں نے غصہ بھی کیا ہوگا۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس کے بعد ندیم جوزف اپنے گھر سے نکل آئے اور مجرم سلیمان کے ساتھ بحث شروع ہوئی اور اس کے بعد ندیم جوزف نے اپنا موبائل نکال کر سلیمان کی ویڈیو بنانی شروع کی جس پر جھگڑا زیادہ ہو گیا اور سلیمان نے گھر سے اسلحہ نکال کر فائرنگ کی جس سے ندیم جوزف، ان کی ساس اور بہنوئی کو ایک ایک گولی لگی اور موقع پر ان کو اسپتال منتقل کیا گیا۔

تفشیشی افسر نے مزید کہا کہ جس وقت ندیم جوزف ویڈیو بنارہا تھا اس وقت سلیمان کے پاس اسلحہ نہیں تھا اور اسلحہ بعد میں نکالا گیا اور اس میں ہم نے مقامی شاہدین کے بیانات بھی ریکارڈ کیے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ مجرم سلیمان کا تعلق ضلع خیبر کے باڑہ کے علاقے سے ہے اور وہ ایک مقامی خان کے ساتھ سکیورٹی گارڈ تھے مگر پولیس ریکارڈ کے مطابق مجرم سلیمان پر پہلے نہ کوئی ایف آئی آر درج ہوئی اور نہ ہی کوئی شکایت ہے۔

تفشیشی افسر نے ندیم جوزف کی ویڈیو پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہر محلے میں چھوٹے موٹے جھگڑے ہوتے ہیں مگر ندیم جوزف نے سلیمان کے تنگ کرنے کے حوالے سے تھانے میں پہلے کوئی شکایت نہیں کی۔ اگر کی ہوتی تو ہم اس کو کیس کا حصہ بناتے۔ تفشیشی افسر نے مزید کہا کہ پشاور میں ہندو، مسیحی، سکھ اور مسلمان کئی جگہوں پر ایک ساتھ رہ رہے ہیں اور ان کے درمیان بھی جھگڑے ہوتے ہیں مگر یہ ذاتی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ مذہبی عنصر بہت کم سامنے آیا ہے۔

تفشیشی افسر نے مزید کہا کہ جب ندیم جوزف زخمی ہوئے تو ہمارے پولیس کے ASI شعیب نے اپنی ٹیم سمیت اسپتال میں ندیم کو خون دیا اور اس کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ انھوں نے مزید کہا کہ پہلے کیس میں مجرمان نے ضمانت قبل از گرفتاری کروائی تھی مگر اب چونکہ یہ کیس قتل میں تبدیل ہوا تو پولیس مختلف جگہوں پر چھاپے مار رہی ہے اور جلد ملزمان کو پکڑا جائے گا جو کہ تاحال روپوش ہیں۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔