سلیکٹر کی جانب سے کھلاڑی کو بتا دیا گیا کہ پچ میں خود جان ڈالنی پڑتی ہے؟

سلیکٹر کی جانب سے کھلاڑی کو بتا دیا گیا کہ پچ میں خود جان ڈالنی پڑتی ہے؟
پاکستانی سیاست میں لمبی اننگز صرف حکومت سے باہر ہی ہوا کرتی ہیں حکومت میں تو چند ماہ  گزرتے نہیں  بازار سیاست کا ہر صدا لگانے والا زوال کی منادی کرنے لگ جاتا ہے۔ آج کل عمران خان حکومت کے ساتھ یہی صورتحال درپیش ہے۔ ہر جانب مائنس عمران فارمولے کی باز گشت ہے۔ جس کے جواب میں وزیر اعظم اور انکے رفقا تن من کا زور لگا کر اسکی تردید میں مصروف ہیں مگر یوں لگ رہا ہے کہ انکی آوازیں ہر آنے والے دن میں کمزور پڑتی چلی جا رہی ہیں۔

حکومتوں کے آنے جانے کے دھندے کو  بہترین انداز سے سمجھنے اور کسی بھی حکومت کے آنے جانے کی  حرف بہ حرف سچی پیش گوئیاں کرنے والے صحافی سہیل وڑائچ بھیں ہیں کہ گزشتہ ماہ سے انکا قلم عمران خان کی رخصتی کے حوالوں سے مختلف تجزیئے کرتے تھک ہی نہیں رہا۔ پھر ان تجزیوں میں پڑھنے والوں کے نام بڑی بڑی خبریں بھی چھپی ہوتی ہیں جو معاملے کو  مزید چٹپٹا بنا دیتی ہیں۔

اب کی بار ایک بار پھر بی بی سی کے لئے اپنے لکھے گئے کالم میں انہوں نے کرکٹ کو سامنے رکھ کر سیاست پر نشانہ داغا ہے۔ اب کیا کریں کہ سلیکٹر اور کھلاڑی کی کرکٹ میں استعمال ہونے والی اصطلاح عمران خان کا دامن تھامے ہی سیاست میں وارد ہوئی پھر قسمت کی کرنی یہ کہ یہی اصطلاحات آج کل کپتان کا سیاسی قد کاٹھ  ناپنے اور انکی سیاست کو بیان کرنے کے لئے بطور تنقید استعمال ہو رہی ہے۔

سہیل وڑائچ کا یہ کالم  جس کا عنوان ہے سلیکڑ سے کون پوچھے، بھی اسی قسم کی ایک زبردست کوشش ہے تاہم اس میں سیاسی مستقبل کے حوالے سے اشارے بھی موجود ہیں۔

چونکہ ایک عام خیال ہے کہ عمران خان  حکومت میں آئے نہیں بلکہ لائے گئے ہیں اس لئے اکثر انکو سلیکٹڈ کہا جاتا ہے۔ اب ہر سلیکٹڈ کا ایک یا دو یا اس سے بھی زائد سلیکٹر تو ہوں گے؟ بس اسی سیاق و سباق میں سہیل وڑائچ لکھتے ہیں کہ سلیکٹرز کے پاس اس بار اختیار تھا، انھیں سب کھلاڑیوں کے ماضی اور حال کا علم تھا۔ سب کی پرفارمنس بھی پتا تھی مگر اس کے باوجود غلط ٹیم چنی گئی۔ کھلاڑی کورونا کے شکار تھے، وہ کارکردگی دکھا ہی نہیں سکتے تھے تو پھر آخر انھیں چُنا کیوں گیا؟

سوال یہ ہے کہ ٹیم کی غلط سلیکشن پر سلیکٹرز سے کون پوچھے؟ چیف سلیکٹر کرکٹ کھیلتے بھی رہے ہیں اور کرکٹ کے داؤ پیچ کو بخوبی جانتے ہیں۔ وہ کافی عرصے سے کھلاڑی سے متاثر تھے، ان کے اہلِ خاندان بھی اس کے کرشمے میں تھے۔ اس لیے کھلاڑی کی بطور کپتان نامزدگی میرٹ سے زیادہ ذاتی پسند اور ناپسند پر مبنی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ سلیکٹرز کا خیال ہو کہ ٹیم دیکھنے میں جوان ہے، فٹ ہے، ٹی وی سکرینوں پر بولتے ہوئے مخالفین کے چھکے چھڑا دیتی ہے، اس لیے میدان میں بھی چوکے چھکے مارے گی۔ اسی خیال سے سلیکٹرز نے پچھلے کپتان کو نو بال پر آؤٹ دے دیا۔ مگر موجودہ ٹیم کے اکثر کھلاڑی ’ڈک‘ پر آؤٹ ہوتے رہے، اب سلیکٹرز سے کون پوچھے؟

یعنی یہ کہ سہیل وڑائچ مانتے ہیں کہ ملک کے مقتدر حلقوں نے نواز شریف کو اس کیس میں سزا دی جس میں بنتی نہیں تھی یا دوسرے لفظوں میں وہ غلط نکالے گئے۔ اسی طرح موجودہ حکمران گروپ پرفارم نہیں کر پا رہے۔

 

سہیل وڑائچ پھر کہتے ہیں کہ کپتان درست کہتا ہے کہ اسے وکٹ ہی اچھی نہیں ملی، پچ پر گھاس نام کو نہیں بچا تھا، برسوں سے میدان کی گھاس کو برباد کیا جا رہا تھا۔ ایسے میں کپتان اور اس کے بولر کیا کرتے۔ اب وکٹ تیار کرنے والے گراؤنڈ مین یہ کہتے سنے گئے ہیں کہ وکٹ شروع سے ہی ایسی ہے، اسی وکٹ میں جان ڈال کر نتائج دکھانا پڑتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فاسٹ بولر نہیں چلتے تو کپتان کو چاہیے تھا کہ پرانے اور تجربہ کار سپنرز کو آزماتا، وہ لازماً مثبت نتائج دیتے۔

مگر ہوا یہ کہ کپتان کو ٹیم چننے میں مکمل آزادی دے دی گئی، اس نے سرائیکی اور پٹھان دو اٹیک بولر ایسے ڈال دیے جن کا بال وکٹوں تک پہنچ ہی نہیں رہا۔ پوچھنا تو سلیکٹرز سے چاہیے کہ سب سارے کھیل کا انتظام آپ کا تھا تو ان دو اہم ترین کھلاڑیوں کے انتخاب پر آپ چُپ کیوں رہے مگر سلیکٹرز سے کون پوچھے

اب وکٹ تیار کنے والے گراونڈ مین کون ہیں ؟ اس پر خاص کہنے کی ضرورت نہیں تاہم اشارہ واضح ہے کہ لانے والے کہہ رہے ہیں کہ کچھ خود بھی کرلو۔

سہیل وڑائچ اختتام کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ  توقع یہ تھی کہ نئی ٹیم چونکہ اوور سیز میں بڑی پاپولر ہے اور کپتان کی ٹیم کو بیرون ملک پاکستانی بہت سراہتے ہیں اس لیے وہ ٹیم پر سرمایہ کاری کریں گے۔ کرکٹ کے میدانوں کو سرمایہ کے ذریعے سجا دیں گے، کھلاڑیوں اور کھیل سے وابستہ لوگوں کو مالا مال کر دیں گے۔

شاید یہی توقع سلیکٹرز کو بھی تھی۔ مگر اوور سیز پاکستانی گیم کو دیکھ کر تالیاں بجانے تک محدود ہیں۔ وہ اس سے آگے بڑھنے کو تیار نہیں۔ اس پر کپتان بھی پریشان ہو گا، تماشائی کرکٹ کی معیشت کی تباہ حالی پر شدید پریشان ہیں۔ میدان اجڑ گئے ہیں۔ تماشائی شکستہ حال ہیں۔ چولہے بجھ گئے ہیں۔ کرکٹ سے وابستہ لوگ ٹیم کے اس انتخاب پر سلیکٹرز سے بہت سوال کرنا چاہتے ہیں مگر سیلیکٹرز سے کون پوچھے؟

 

سہیل وڑائچ کرکٹ کھیلتے کھیلتے سیاسی تجزیہ کر گئے ہیں۔ جس میں واضح اشارے موجود ہیں کہ چاہے ابھی تھرڈ ایمپائر کی جانب سے  پویلین لوٹنے کے لئے لال بتی نہیں جلائی گئی تاہم بتی اب سبز بھی نہیں۔