جب نواز شریف نے جج پر دباؤ ڈال کر بے نظیر اور آصف زرداری کے خلاف فیصلے کروائے اور کالز ریکارڈ ہوگئیں

جب نواز شریف نے جج پر دباؤ ڈال کر بے نظیر اور آصف زرداری کے خلاف فیصلے کروائے اور کالز ریکارڈ ہوگئیں
جج ارشد ملک کیس نے پاکستان میں  نظام انصاف پر ایک بار پھر بڑے سوالات اٹھائے ہیں۔ مولوی تمیز الدین سے شروع ہونے والی  عدلیہ کے متنازعہ کردار کی تاریخ جج ارشد ملک پر آکر شاید کچھ دیر رکی ہے اور ہر پاکستانی امید ہی کر سکتا ہے کہ یہ یہیں رکی رہے۔

ڈکٹیٹرز تو  کھلے عام عدلیہ کو ربر سٹیمپ کی طرح استعمال کرتے رہے ہیں تاہم سیاسی حکومتیں بھی اپوزیشن کو رگڑا لگانے کے لئے  عدالت جے ترازو کو طاقت کے ڈنڈے کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں۔ ستم ظریفی یہ کہ  آج بظاہر جج ارشد ملک تین بار ملک کے وزیر اعظم منتخب ہونے والے نواز شریف کے خلاف استعمال ہوئے لیکن عدلیہ کی تاریخ  میں ایک وقت ایسا بھی تھا جب نواز حکومت کی ایما پر بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف فیصلے دیئے گئے جو بعد میں جج ارشد ملک کے ڈراپ سین کی ہی طرح اختتام پذیر ہوئے۔

گو کہ یہ وقت گزر چکا لیکن تاریخ میں یہ ایک بد بودار اور بد شکل باب کی طرح محفوظ ہے۔ اسی باب کو ایک بار پھر ملک کے سینئر صحافی حامد میر سامنے لائے ہیں اور اس پر اپنے کالم میں بات کی ہے۔

حامد میر کہتے ہیں کہ اُس دن شدید حبس تھا، میں بارش کی دعا مانگ رہا تھا، اچانک ٹیلی وژن کی اسکرین پر ایک بریکنگ نیوز نمودار ہوئی اور میرے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ لاہور ہائیکورٹ کی ایک انتظامی کمیٹی نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو سات سال قید سنانے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو نوکری سے برخاست کر دیا تھا۔

گزشتہ سال نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے ایک پریس کانفرنس میں جج ارشد ملک کی خفیہ طور پر ریکارڈ کی گئی ایک وڈیو جاری کی تھی جس میں ارشد ملک یہ اعتراف کر رہا تھا کہ اس نے العزیزیہ اسٹیل مل کیس میں نواز شریف کے ساتھ ناانصافی کی کیونکہ اس پر دباؤ تھا۔

جب انکوائری شروع ہوئی تو جج نے الزام لگایا کہ مسلم لیگ (ن) نے اسے ایک قابلِ اعتراض وڈیو کے ذریعہ بلیک میل کیا۔ موصوف نے یہ اعتراف بھی کر لیا کہ انہوں نے نواز شریف کے ساتھ جاتی امرا اور ان کے صاحبزادے حسین نواز کےساتھ سعودی عرب میں ملاقات کی تھی۔ جج ارشد ملک کو معطل کر دیا گیا اور ایک سال تک ان کا معاملہ لٹکتا رہا۔

اب جب انہیں بر خاست کر دیا گیا ہے تو مسلم لیگ ن کی قیادت اسے اپنی کامیابی قرار دیتی ہے۔ حامد میر کے مطابق انہیں ن لیگ کے اس بیانیئے پر خوب ہنسی آتی ہے کیونکہ آج سے بیس بائیس برس قبل جو آج ن لیگ کے ساتھ ہو رہا ہے وہی ن لیگ اپنے مخالفین کے ساتھ کر رہی تھی۔

حامد میر کہتے ہیں کہ جسٹس ملک محمد قیوم جو 1998میں لاہور ہائیکورٹ کے احتساب بینچ کے جج ہوا کرتے تھے اور پرویز مشرف کے دور میں اٹارنی جنرل بنائے گئے۔

ملک قیوم نے سابق وزیراعظم بےنظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو پانچ سال قید کی سزا سنائی تھی لیکن سزا سنانے کے کچھ عرصہ کے بعد پیپلز پارٹی نے ان کی آڈیو ٹیپس جاری کیں جن میں ان کی اس وقت کے وزیر قانون خالد انور، احتساب بیورو کے سربراہ سیف الرحمٰن اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے ساتھ گفتگو موجود تھی اور اس گفتگو کے مطابق جسٹس ملک قیوم نے وزیراعظم نواز شریف کی خواہش اور دبائو پر محترمہ بےنظیر بھٹو کو سزا سنائی تھی۔

جب ملک قیوم کو احتساب بینچ میں شامل کیا گیا تو پیپلز پارٹی نے بہت شور مچایا کیونکہ ملک قیوم کے چھوٹے بھائی پرویز ملک مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی تھے۔

اس دوران ملک قیوم اور نجم الحسن کاظمی پر مشتمل ایک ڈویژن بینچ نے محترمہ بےنظیر بھٹو کو بیرونِ ملک جانے کی اجازت دیدی جس پر سیف الرحمٰن بہت ناراض تھے۔

انہیں شک تھا کہ ملک قیوم نے آصف علی زرداری کے ساتھ کوئی خفیہ ڈیل کر لی ہے لہٰذا انہوں نے ملک قیوم کے گھر اور دفتر پر زیر استعمال ٹیلی فون ٹیپ کرانے شروع کر دیے۔ نواز شریف دو تہائی اکثریت کے وزیراعظم تھے اور سیف الرحمٰن ٹیلی فون پر ملک قیوم کو باس بن کر حکم دیا کرتے تھے۔ اس دوران نواز شریف نے لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس راشد عزیز خان کو فون کیا اور کہا کہ ملک قیوم کو سمجھائیں اسے بےنظیر اور زرداری کے خلاف مقدمہ جلد نمٹانا چاہئے۔

27اپریل 1998کو ملک قیوم نے محترمہ بےنظیر بھٹو اور ان کے شوہر کو سزا سنا دی۔ اس فیصلے پر شہباز شریف نے ان کا شکریہ ادا کیا اور یہ شکریہ بھی ریکارڈ ہو گیا۔ سیف الرحمٰن نے عدلیہ کے علاوہ میڈیا اور فوج کی اہم شخصیات پر بھی رعب ڈالنا شروع کر دیا۔

اس فرعونیت کے ردعمل میں ملک قیوم کے ساتھ ان کی گفتگو کی ٹیپس محترمہ بےنظیر بھٹو تک پہنچ گئیں۔ ان میں وہ ٹیپس بھی تھیں جن میں ملک قیوم کی اپنی اہلیہ کے ساتھ گفتگو ریکارڈ تھی اور وہ اہلیہ کو حکومت کے دبائو سے آگاہ کر رہے تھے۔

پھر بیگم ملک قیوم کی پرویز ملک سے گفتگو کی ٹیپ بھی تھی لیکن محترمہ بےنظیر بھٹو نے صرف سیف الرحمٰن، خالد انور اور شہباز شریف کی ٹیپس ریلیز کیں، خاندان کے دیگر افراد کی ٹیپس صرف سپریم کورٹ کو فراہم کیں۔ سپریم کورٹ نے ان ٹیپس میں ہونے والی گفتگو پر کوئی فیصلہ نہیں دیا کیونکہ ملک قیوم نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدیا البتہ ملک قیوم کی طرف سے محترمہ بےنظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو سنایا جانے والا فیصلہ سپریم کورٹ نے معطل کر دیا تھا

حامد میر لکھتے ہیں کہ جج ارشد ملک کو یقین تھا کہ انہیں طاقتور حلقے بچا لیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ضرورت پڑنے پر انہوں نے انکا فون سننا بھی چھوڑ دیا۔

انہوں نے عدالتوں کے منصفوں کو تاریخ کا سبق بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ تاریخ دیکھ لیجئے جو جج حکمرانوں کے دباؤ میں آئے وہ رسوا ہوئے اور جن  حکمرانوں نے دباؤ ڈالا وہ بھی ذلیل ہو کر رہ گئے۔

تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے، مولوی تمیز الدین کیس میں چیف جسٹس محمد منیر نے نظریہ ضرورت ایجاد کیا اور اسمبلی توڑنے کے فیصلے کو درست قرار دیا۔ جسٹس اے آر کارنیلئس نے اس فیصلے سے اختلاف کیا۔ جسٹس منیر ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل ایوب خان کے وزیر قانون بھی بن گئے لیکن ان کا نام پاکستانی عدلیہ کے لئے ایک طعنہ اور جسٹس کارنیلئس کا نام عزت کا باعث بنا۔

گورنر جنرل غلام محمد سے فوجی ڈکٹیٹر پرویز مشرف تک جس کسی نے بھی عدلیہ پر دبائو ڈالا اسے عزت نصیب نہیں ہوئی۔ ہو سکتا ہے کہ العزیزیہ کیس میں جج ارشد ملک نے واقعی نواز شریف کے ساتھ ناانصافی کی ہو لیکن جو نواز شریف کے دورِ حکومت میں ملک قیوم نے محترمہ بےنظیر بھٹو کےساتھ کیا اس کی سزا بھی تو کسی نہ کسی کو ملنا تھی۔ کچھ سزائیں عدالتیں نہیں قدرت دیتی ہے۔

 

ملک قیوم اور ارشد ملک کی کہانیوں میں عمران خان کے لئے یہ سبق ہے کہ ججوں پر بالواسطہ یا بلاواسطہ اثر انداز ہونے کی کوشش کرنے والے طاقتور لوگوں کو آخر میں صرف رسوائی ملتی ہے۔

حامد میر کے مطابق جج قیوم ملک کی کہانی ختم ہوئی اور اسکے کردار اپنا کیا بھگت رہے ہیں لیکن جج ارشد ملک کی کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی اور وہ ایسا ہی انجام پائے گی جیسا کہ جج قیوم ملک کی کہانی نے پایا۔