نیب میں کرپشن پکڑنے کی سکت ہی نہیں، ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا ’خبر سے آگے‘ میں اظہارِ خیال

نیب میں کرپشن پکڑنے کی سکت ہی نہیں، ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا ’خبر سے آگے‘ میں اظہارِ خیال
سوموار کی شام نیا دور کے پروگرام خبر سے آگے میں بات چیت کرتے ہوئے ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا کہنا تھا کہ نیب میں کرپشن پکڑنے کی سکت اور ان کی ٹریننگ ہی نہیں، یہی وجہ ہے کہ یہ کرپشن ثابت کرنے میں ناکام رہتے ہیں، کیونکہ کرپشن ایک مرتبہ جب ہو جائے تو اسے ثابت کرنا ایک انتہائی مشکل کام ہوتا ہے۔

خبر سے آگے میں میزبانوں رضا رومی اور مرتضیٰ سولنگی کے ساتھ آج مہمان ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کے علاوہ سینیئر وکیل اسد جمال اور صحافی و رپورٹر اسد علی طور بھی موجود تھے۔ پروگرام میں سپریم کورٹ کا سعد رفیق ضمانت کیس میں تفصیلی فیصلہ موضوعِ بحث رہا اور شرکا نے اس موقع پر انتہائی اہم نکات اٹھائے۔ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ خود نیب میں کام کر چکی ہیں، اور انہوں نے اس پروگرام میں اس ادارے کی خامیوں سے متعلق تفصیلی گفتگو کی۔

اسد جمال نے اس موقع پر کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ نیب سیاسی انجینیئرنگ کے لئے استعمال ہوتی آئی ہے اور پہلے چند ماہ کے بعد ہی اس کے قانون میں سقم واضح ہونا شروع ہو گئے تھے جب اس کے پہلے سربراہ جنرل امجد نے یکطرفہ احتساب سے تنگ آ کر استعفا دے دیا تھا۔

اسد علی طور نے آج کے فیصلے میں سے چند اہم ترین حقائق پر روشنی ڈالی اور ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے سے واضح ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ نیب کو یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ وہ سب کچھ ہوتا دیکھ رہی ہے اور وہ اس پر خاموش نہیں رہے گی جو احتساب کے نام پر سیاسی انجینیئرنگ کی جا رہی ہے۔



یہ بھی پڑھیے: ’احتساب کے نام پر سیاسی مخالفین کو منظرنامے سے غائب کیا جاتا ہے‘، سعد رفیق ضمانت کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ







مرتضیٰ سولنگی کا اس موقع پر کہنا تھا کہ نیب سیاسی انجینیئرنگ کی غرض سے بنایا گیا پہلا ادارہ نہیں اور نہ ہی نیب آرڈیننس پہلا قانون ہے جو اس مقصد کی خاطر استعمال کیا جاتا ہو۔ سیاسی انجینیئرنگ کا کام لیاقت علی خان کے دور میں شروع ہو گیا تھا جب PRODA قانون کے تحت کئی سینیئر سیاستدانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اس کے بعد جنرل ایوب خان نے بھی ایبڈو کا قانون اسی نیت سے بنایا تھا۔ اس کے بعد جو کچھ جنرل یحییٰ اور جنرل ضیا کرتے رہے وہ بھی تاریخ کے صفحوں میں محفوظ ہے۔

رضا رومی نے تبصرہ کیا کہ پاکستان میں احتساب کے لئے اتنے ادارے اور قوانین اتنے گنجلک ہیں کہ یہ بھی احتساب کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے بنگلہ دیش میں احتساب کے قانون کا غلط استعمال ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور پھر اس سیاسی نشانہ بنانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ شیخ حسینہ واجد بھاری اکثریت سے منتخب ہو کر حکومت میں آئیں، اور یہی پاکستان کے لئے بھی تاریخ کا سبق ہونا چاہیے کہ جب آپ اتنا دیوار سے لگا دیں گے اپنے مخالفوں کو تو اس کا جواب ضرور آئے گا اور یہ فیصلہ اسی عمل کی ایک چھوٹی سی کڑی ہے۔

ناظرین نے بھی اس موقع پر اہم سوالات اٹھائے۔ ایک سوال یہ بھی کیا گیا کہ کیا اداروں نے عمران خان کے چکر میں خود کو بدنام تو نہیں کر لیا، جس پر ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا جواب تھا کہ اداروں کو شوق ہے، وہ کہتے ہیں کہ بدنام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا۔ عمران خان بدنام ہوتے رہیں گے، ہم اور آپ سمجھیں گے کہ غلطی کی ہے مقتدر اداروں نے، لیکن عوام آخر میں پھر انہی مقتدر اداروں کی طرف دیکھیں گے کہ آئیں اور آ کے ہمیں بچائیں۔

اس پروگرام کو یوٹیوب کے علاوہ ہمارے دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔