سابق طالبان ترجمان احسان اللہ احسان پاکستان کے اداروں کی تحویل سے کیسے فرار ہوئے

سابق طالبان ترجمان احسان اللہ احسان پاکستان کے اداروں کی تحویل سے کیسے فرار ہوئے

پاکستانی قوم کو دردناک زخم دینے والے طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان  اس سال جنوری کے مہینے میں پاکستانی سیکیورٹی ایجنسیوں کی تحویل سے فرار ہوگئے تھے۔ احسان اللہ احسان نے، جن کا اصلی نام لیاقت علی اور تعلق سابق قبائلی علاقہ مہمند ایجنسی سے ہے، 2017 میں خود کو ایک معاہدہ کے تحت پاکستانی حکام کے حوالہ کیا تھا۔  اس وقت میڈیا سمیت عام پاکستانیوں نے سوال پوچھے تھے کہ احسان اللہ احسان کس طرح سے سیکیورٹی ایجنسیوں کی پکڑ سے نکل پائے؟


اور اس حوالےسے تنقید بھی کی گئی تھی۔ تاہم اب احسان اللہ احسان سے منسوب ایک آڈیو یو ٹیوب پر اپلوڈ کی گئی ہے جس میں انہوں نے ان تمام سوالات کا جواب دیا ہے۔  انکے مطابق وہ 12 جنوری (2020) کو وہ اپنے خاندان سمیت فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔  اس حوالے سے وزیر داخلہ برگیڈئیر ر اعجاز شاہ نے تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ایک آپریشن جیسی صورتحال کے دوران سلپ ہوئے۔


لیکن اپنے اس آڈیو میں احسان اللہ احسان نے پاکستانی حکام کے اس دعویٰ کی تردید کی کہ وہ اس سال جنوری میں کسی حساس آپریشن کے دوران سکیورٹی فورسز کی حراست سے فرار ہوئے تھے۔  انہوں نے کہا کہ انہیں پشاور کے شامی روڈ پر واقع جس سیف ہاؤس میں رکھا گیا تھا وہاں آتے ہی انہوں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ یہاں سے نکلنا آسان ثابت ہو گا اور انہوں نے فرار کا پلان بنانا شروع کر دیا تھا۔ 


 انہوں نے فرار کی پلاننگ میں  اس بات کو مرکزی اہمیت  کہ ان کے فرار کا  علم کافی دیر کے بعد  انکی نگرانی پر معمور عملے کو ہوتاکہ انہیں دور اور محفوظ مقام تک پہنچنے کا موقع مل جائے۔


بقول ان کے اس سیف ہاؤس میں سیکیورٹی پر تعینات اہلکار  مرکزی دروازے کے قریب ایک کوارٹر میں رہتے تھے جو دالان کو ٹاپ کرتھا۔  فرار  ہونے سے دو روز قبل انہوں نے مکان کے پچھلے دروازہ کو لگا ہوا تالا توڑا اور مرکزی گیٹ پر لگی گھنٹی بھی خراب کر دی۔ بارہ جنوری کی سرد شام سیف ہاؤس سے نکلنے سے کچھ دیر قبل انہوں نے حسب معمول  رہائشی حصہ کے سامنے کے تمام دروازے بند کر دیے تاکہ  سیکیورٹی گارڈز جو اس وقت اپنے کوارٹر میں کھانا کھا رہے تھے رہائشی حصہ میں دیکھ یا آ نہ سکیں۔


دروازے بند کرنے کے بعد احسان نے کھانا کھایا اور ان کے پاس موجود موبائل کی مدد سے ایک آن لائن ٹیکسی بک کی۔  عشا کے وقت  گھر کے پچھلے دروازہ سے باہر نکلا اور ٹیکسی میں بیٹھ کر حاجی کیمپ اڈہ پہنچا جہاں اسنے  ایک دوسری گاڑی لی۔ 20 گھنٹوں کے سفر کے بعد میں پاکستان کی حدود سے باہر نکل گیا۔ 


تقریبا پوری رات کے سفر کے بعد ایک محفوظ مقام سے انہوں نے ایک پاکستانی افسر کو واٹس ایپ پر کال کی تاکہ معلوم کرسکیں کہ انہیں ان کے فرار کا خبر ملی ہے یا نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ  مجھے معلوم ہوا کہ ابھی تک میرے فرار کا کسی کو علم نہیں ہوا تھا۔


احسان نے پاکستان کی سکیورٹی فورسز پر ان سے ایک ڈیٹھ سکواڈ کی سربراہی کروانے کی کوشش کا الزام بھی لگایا۔ ان کے مطابق اس ڈیتھ سکواڈ میں حکومت کے حمایتی عسکریت پسندوں کو شامل کیا جانا تھا اور اس کا کام ملک دشمن عناصر کا قلع قمع تھا۔ ’ان ملک دشمن عناصر کی ایک فہرست بھی فراہم کی گئی جن میں زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے لوگ بشمول صحافیوں کے نام شامل تھے۔


احسان اللہ احسان نے دعوی کیا کہ انہوں نے اس ڈیتھ سکواڈ کی سربراہی کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ ایک پرامن زندگی بسر کرنا چاہتے تھے۔ اور اسی مقصد کے لیے انہوں پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے آگے ہتھیار ڈالے تھے۔


یاد رہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ احسان اللہ احسان کو ہم استعمال کر رہے تھے، احسان اللہ احسان کے آڈیو ٹیپ میں دعوے سراسر بے بنیاد ہیں، احسان اللہ احسان کی انفارمیشن سے ہمیں بہت فائدہ ہوا۔ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتی۔