لاپتہ افراد اور ایسی قبریں جن کا کوئی وجود نہیں

لاپتہ افراد اور ایسی قبریں جن کا کوئی وجود نہیں
 

ہم ایک ایسی لاش پر ماتم کررہے ہیں جس کا چار سال سے کوئی وجود نہیں. جبری گمشدگیوں کے عالمی دن پر سات سالہ عائشہ ہاتھ میں مائیک پکڑے اسلام آباد پریس کلب کے سامنے اپنے تیس سالہ والد محمد اسامہ مرزا کی رہائی کے لئے حکومت وقت سے مطالبہ کررہی تھیں۔ عائشہ کے ساتھ ان کے تین بہن بھائی اور ساٹھ سالہ دادی فائزہ خانم بھی موجود تھیں جو محمد اسامہ مرزا کی رہائی کے لئے اس احتجاج میں آئے تھے جن کو اٹھائیس دسمبر 2016 کو میڈیا ٹاوٗن اسلام آباد سے اُٹھایا گیا تھا اور تاحال ان کے خاندان کو نہیں معلوم کہ وہ کس حال میں ہے؟

 

محمد اسامہ مرزا کا  تعلق اسلام آباد سے ہے اور انھوں نے بیکن ہاوٗس سے اے لیول نمایا گریڈز میں پاس کیا اور پھر نسٹ یونیورسٹی سے انجینیرنگ کی اسامہ غازی کو امریکہ کی ایک یونیورسٹی سے سکالرشپ کی آفر بھی آئی مگر وہ اپنے خاندان کا اکلوتا تھا اس لئے گھر والوں نے اُس کو جانے کی آجازت نہیں دی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسامہ مرزا نے نوکری کے لئے مختلف اداروں میں اپلائی کیا مگر جواب نہیں آیا جس کے ایک سال بعد اس نے کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر موٹرسائیکلوں کا ایک شوروم کھول دیا اور محنت کرکے اپنے کاروبار کو وسعت دی جس پر اس کا خاندان بہت خوش تھا۔ اسامہ مرزا کے والد بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور وہ کئی دہائیوں سے سعودی عرب میں اپنا کاروبار کررہے ہیں۔ اُسامہ مرزا کی ماں جو سخت بیمار ہے پیر کے روز وہ انسانی حقوق کی کارکن آمنہ مسعود جنجوعہ کے ہمرا اسلام آباد پریس کلب جبری طور پر گمشدہ اسامہ مرزا کے بچوں سمیت احتجاج کے لئے پہنچیں۔

فائزہ خانم نے بتایا کہ ان کا بیٹا اسامہ خاندان میں اکلوتا تھا اس لئے اس کو ہم نے بہت پیار دیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ اُسامہ نے اکتوبر دو ہزار سولہ میں اپنا نیا شو روم کھولا اور وہ بہت خوش تھا کیونکہ شو روم کھولنے کے اگلے دن اس کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تھا۔ ہم نے پلاٹ بیچ کر اپنے بیٹے کے لئے ایک شوروم کھول دیا اور وہ بہت کامیابی سے چل رہا تھا۔ یہ آٹھائیس دسمبر دو ہزار سولہ کا واقع ہے کہ میرا بیٹا میری گاڑی میں اپنے ملازم سمیت رات کے وقت اپنے شوروم سے واپس آرہا تھا کہ میڈیا ٹاوٗن کے قریب اس کی گاڑی کو چاروں طرف سے گھیر لیا گیا اور اس کو اغوا کر لیا گیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہمیں نہیں معلوم تھا کہ میرا بیٹا کہاں گیا مگر اگلے روز نوکر کو رہا کردیا اور وہ سیدھا میرے پاس آیا اور کہا کہ اسامہ کو سیکیورٹی کے اداروں نے اغوا کیا ہے اور مجھے کہا ہے کہ اگر  کسی کو یہ بات بتائی تو آپ کو بھی نہیں چھوڑا جائے گا۔

فائزہ نے مزید کہا کہ اگلے روز پولیس اور کچھ دیگر اداروں کے لوگوں نے ہمارے گھر کا محاصر ہ کیا اور تلاشی شروع کی جس پر میں نے ان کو کہا کہ وارنٹ کدھر ہے جس پر انھوں نے جواب دیا کہ بھائی ڈیفنس میں چھاپہ ہے مزاق سمجھتی ہو۔ سیکیورٹی کے اداروں اور پولیس نے ہمیں ہراساں کیا اور کہا کہ اسلحہ کدھر ہے مگر ہمارے پاس اسلحہ کہاں تھا بس انھوں نے گھر میں موجود زیورات اور اسلحہ اپنے ساتھ لیا اور روانہ ہوگئے۔ فائزہ نے مزید کہا کہ ان کے بچے مجھ سے پوچھتے تھے کہ ہمارے بابا کہاں ہیں تو میں ان کو جواب دیتی تھی کہ وہ اپنے ابو کے پاس سعودی عرب گئے ہیں مگر اب چونکہ وہ بڑے ہوگئے ہیں تو مسلسل اصرار کے بعد میں نے ان کو کہا کہ آپ کے بابا کو گندے لوگ لیکر گئے ہیں اور جب وہ لوگ صاف ہوجائینگے تو واپس آجائینگے۔ اس سوال پر کہ اسامہ کے اغوا کے بعد گھر کا ماحول کیسا ہے، کیا آپ کو اسامہ یاد اتا ہے؟ اسامہ کی ماں کچھ لمحے کے لئے رک گئی اور ان کی انکھوں میں آنسو نمودار ہوئے اور کہا کہ اللہ کے پغمبر حضرت یعقوب کو پتہ تھا کہ ان کا بیٹا یوسف زندہ ہے مگر وہ پھر بھی برقرار تھے تو ہمارا کیا حال ہوگا کیونکہ ہمیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ ہمارا بیٹا زندہ ہے یا مرگیا ہے کیونکہ ہم ایک ایسی قبر پر ماتم کررہے ہیں جس کا کوئی وجود نہیں۔

سال دو ہزار گیارہ میں جبری طور پر گمشدہ افراد کے لئے بنائے گئے کمیشن کے اگست تک کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ نو سالوں میں چھ ہزار سے زیادہ جبری گمشدگیوں کی رپورٹس درج ہوئیں جن میں دو ہزار سے زیادہ افراد کا تاحال معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہیں؟

پچپن سالہ حکمہ کا تعلق قبائلی علاقہ ضلع مہمند سے ہیں اور وہ بھی اپنے پچیس سالہ پوتے راج ولی کی گمشدگی کا رونا رونے اسلام آباد پریس کلب کے اس احتجاج میں شریک تھیں اور دھاڑیں مار مار کر فریاد کرنے کی وجہ سے وہ پورے احتجاج میں لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی رہیں۔ انھوں نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ ان کا پوتا راج ولی گھر میں سب سے بڑا تھا اورلکڑیوں کا چھوٹا موٹا کاروبار کرتا تھا اور وہ چار بچوں کا باپ ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ وہ سال دو ہزار سترہ میں قریبی گاوٗں سے واپس آرہا تھا کہ اس کو سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے گاڑی میں ڈالا اور اپنے ساتھ لے گئے اور تاحال وہ ان کی تحویل میں ہے مگر ہم ماتم کررہے ہیں اور ہمارے پوتے کا کچھ پتہ نہیں چل رہا کہ وہ زندہ ہے کہ مرگیا ہے۔ راج ولی کے بھائی نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ ان کی گمشدگی کے بعد ہم نے کئی اداروں سے رابطہ کیا مگر کوئی شنوائی نہیں ہوسکی جس کے بعد ہم نے پشاور ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی اور پشاور ہائی کورٹ نے میرے بھائی کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے رہا کرنے کا فیصلہ کیا۔ عدالت کے احکامات کے باوٗجود اس کو اب تک رہا نہیں کیا گیا۔

احتجاج میں پینتیس سالہ محمد اویس کی بیوی بھی شریک تھی جن کی انکھوں سے مسلسل آنسو نکل رہے تھے۔ محمد اویس کی بیوی عروہ فہیم کا تعلق اسلام آباد سے ہے اور ان کے شوہر محمد اویس نے انجینرنگ میں ایم فل کی دو ٖڈگریاں حاصل کی ہیں اور دونوں میں گولڈ میڈلسٹ ہٰیں۔ عروہ فہیم نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ اس کے خاوند کو سال دو ہزار سترہ میں سیکیورٹی فورسز نے اُٹھایا اور تاحال نہیں معلوم کہ وہ زندہ ہے یا پھر مرگئے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ میں اپنے خاوند کو بہت  قریب سے جانتی ہو اور ان کا تعلق کسی ایسی جماعت یا سیاسی تنظیم سے نہیں کہ ان کو اُٹھایا جائے۔ عروہ فہیم نے اشکبار آنکھوں کے ساتھ بتایا کہ جنھوں نے ہمارے لواحقین کو اُٹھایا ہے اگر ان کے اپنے بچے اور رشتہ دار اُٹھائے جائے تو ان کا کیا حال ہوگا لیکن اگر وہ اثر رسوخ والے ہیں اور ہم ان سے نہیں پوچھ سکتے تو قیامت کے روز ہمارے ہاتھ ہونگے اور ان کے گریبان اور ہم ان سے پوچھینگے کہ ہمارے ساتھ اتنا بڑا ظلم کیوں کیا گیا۔

 

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔