وقار سیٹھ کی موت نے پاکستان، آئین اور جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا: لطیف آفریدی 

وقار سیٹھ کی موت نے پاکستان، آئین اور جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا: لطیف آفریدی 

گزشتہ روز سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کے تفصیلی فیصلہ سے شہرت پانے والے  خصوصی عدالت کے جج اور پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کی کورونا وائرس سے اچانک موت نے ملک کے اندر اور باہر سینکڑوں لوگوں کو افسردہ کیا اور لوگوں نے نہ صرف ان کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا بلکہ کچھ صارفین نے یہاں تک لکھ دیا کہ جسٹس وقار سیٹھ کی موت سے انصاف کی جنگ بھی دفن ہوئی۔ جسٹس وقار سیٹھ اور ان کی اہلیہ اسلام آباد کی ایک نجی ہسپتال میں زیر علاج تھے اور دونوں کورونا وائرس کا شکار تھے۔


جسٹس وقار سیٹھ کو آج شام پشاور کے مقامی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا اور انھوں نے پسماندگان میں ایک بیوہ اور بیٹی چھوڑی ہے۔ ان کے انتقال پر صدر عارف علوی، وزیر اعظم پاکستان عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے افسوس کے پیغامات جاری کئے۔


پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے ان کے انتقال پر ملک بھر میں یوم سوگ منانے کا اعلان کیا گیا ہے۔


جسٹس وقار سیٹھ خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں پیدا ہوئے تھے اور پشاور لاء کالج سے وکالت کے شعبے میں ڈگری حاصل کی اور حال ہی میں انھوں نے اپنے وکیل کے زریعے درخواست جمع کی تھی جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ لاہور کے دو اور سندھ کے ایک جونئیر ججوں کو سپریم کورٹ میں تعینات کرکے ان کی حق تلفی کی گئی ہے۔


پشاور میں روزنامہ ڈان سے وابستہ اور کئی سالوں سے پشاور ہائی کورٹ کی رپورٹنگ کرنے والے سئینر صحافی وسیم احمد شاہ نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ یہ ظلم ہوگا اگر ہم جسٹس وقار سیٹھ کے شہرت کو صرف جنرل مشرف کے فیصلے تک محدود کریں بلکہ انھوں نے مفادعامہ میں کئی ایسے فیصلے کئے تھے جو منظر عام پر نہیں آئے، مگر وہ تاریخی فیصلے تھے۔ انھوں نے کہا کہ سب سے بڑا فیصلہ جو انھوں نے جاری کیا تھا  وہ فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ 75 مبینہ دہشتگردوں کے سزاؤں کو کالعدم قرار دیا تھا اور ان کے مقدمات کو سول عدالتوں میں چلانے کے احکامات جاری کئے تھے۔  وسیم احمد شاہ نے مزید کہا کہ دوسرا تاریخی فیصلہ جو جسٹس وقار سیٹھ کا تھا وہ فوج کے  زیر نگرانی حراستی مراکز کو غیر قانونی قرار دینا تھا جس میں انھوں نے موقف اپنایا تھا کہ فوج کے زیر انتظام حراستی مراکز کو تھانوں میں تبدیل کیا جائے اور یہ مراکز پولیس کے کنٹرول میں لائے جائے۔


وسیم احمد شاہ نے مزید کہا کہ تیسرا فیصلہ فوج کو خیبر پختونخوا میں آئین کے دائرہ اختیار سے زیادہ اختیارات کے خلاف فیصلہ اور حکمران جماعت تحریک انصاف کی جانب سے شروع کرنے والا  بی آر ٹی پراجیکٹ تھا جن کی تحقیقات کے لئے انھوں نے قومی احتساب بیورو سے کو احکامات دئیے تھے۔


وسیم احمد شاہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ مشرف کا فیصلہ ایک سیاسی فیصلہ تھا اس لئے وہ میڈیا میں منظر عام پر آیا ورنہ ان کا ہر فیصلہ تاریخی تھا جن مفاد عامہ میں ہوتا تھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ جب وہ وکیل تھے تب بھی وہ سادے مزاج کے مالک تھے اور میڈیا سے دور رہتے تھے کیونکہ ان کو شہرت کی لالچ نہیں تھی اور نہ کبھی صحافیوں سے اپنی مرضی کے خبریں لگوائیں۔ کیونکہ وہ ان چیزوں سے عاری ایک انسان تھے۔ انھوں نے مزید کہا کہ جسٹس وقار سیٹھ کی مزاج دوران وکالت جیسی تھی وہی مزاج بطور جج بھی رہی اور ان کے مزاج میں کوئی تکبر نہیں آئی نہ وہ صحافیوں سے ملتے تھے اور نہ ہی کوئی انٹرویو یا میڈیا میں انے کے شوقین تھے بس اپنے کام سے جنون کی حد تک پیار تھا۔ وسیم احمد شاہ کہتے ہے کہ بطور جج وہ عدالت میں سینئر یا جونئیر وکیل میں کوئی تفریق نہیں کرتے تھے جو اکثر لوگ کرتے تھے بلکہ دلائل کو تولتے تھے اور اس پر ہی فیصلے کرتے تھے ۔ وسیم احمد شاہ نے مزید کہا کہ ان کے دوستوں کو بھی معلوم تھا کہ وقار کسی معاملے میں کسی دوست یا رشتہ دار کا وقار نہیں رکھتے اس لئے سفارش کرنے سے دور ہی رہتے تھے۔


سپریم کورٹ بار ایسوسیشن کے صدر اور خیبر پختون خوا کے نامور وکیل لطیف افریدی ( لطیف لالا) نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ جسٹس سیٹھ وقار کی موت عدلیہ، پاکستان، آئین اور پاکستان کے لئے ایک عظیم سانحہ ہے جس کو کبھی پُر نہیں کیا جاسکتا۔ وہ ایک ایماندار، بہادر ، نڈر اور جمہوری آدمی تھے جن کی زندگی نظام انصاف کے ساتھ وابستہ تھی اور مفاد عامہ کے فیصلوں کے تاریخی فیصلوں نے ان کو دلوں میں ہمیشہ کے زندہ کیا۔


لطیٖف لالا نے مزید کہا کہ بطور وکیل میں نے آئین ،قانون  اور جمہوریت سے پیار کرنے والے کم جج دیکھے جو ملک ، ائین اور قانون کے لئے ایک درد رکھتے تھے اور قانون کی عملداری کے لئے جدوجہد کرتے تھے۔ لطیف لالا کہتے ہیں ان کی موت بہت جلدی ہوئی اور ہمیں امید تھی کہ وہ اپنی زندگی میں تاریخی فیصلے کریگا کیونکہ بطور جج انھوں نے کبھی کسی کی پروا نہیں کی اور نہ کسی کی دباؤ قبول کیا بلکہ وہ اپنے سمجھ بوجھ کے مطابق فیصلے کرتے تھے اور نتائج کی پروا نہیں کرتے تھے۔ انھوں نے مزید کہا کہ انہوں نے ہمیشہ ان لوگوں کو دل میں بسایا جو آئین ، قانون اور جمہوریت سے حقیقی معنوں میں محبت کرتے ہیں اور جسٹس سیٹھ وقار ان تینوں کا پیکر تھا جو آج ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن ہوگئے اللہ ان کی معفرت فرمائے اور ہمیں ہمت دے کہ ان کے جذبے اور کام سے استفادہ  کریں۔ 

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔