خیبر پختونخوا اسمبلی نے 8 سال سے مسلسل مسترد ہونے والے گھریلو تشدد سے بچاؤ بل 2021 کو منظور کرلیا

خیبر پختونخوا اسمبلی نے 8 سال سے مسلسل مسترد ہونے والے گھریلو تشدد سے بچاؤ بل 2021 کو منظور کرلیا

ویسے تو یہ کہنا کہ پاکستان میں خواتین کے لیے سب اچھا ہو چکا ہے بالکل غلط ہوگا لیکن وقت کےس اتھ ساتھ کسی نہ کسی سطح پر کسی نہ کسی طرحکی مثبت تبدیلیاں ضرور آرہی ہیں۔  جن میں سے ایک خیبر پختونخوا میں خواتین کے حوالے سے گھریلو تشدد سے بچاؤ اور حفاظت بل 2021 ہے جس کے کے پی اسمبلی سے منظوری کو ایک اہم سنگ میل قرار دیا جا رہا ہے۔  یاد رہے کہ سابق چئیرمین  اسلامی نظریاتی کونسل مولانا شیرانی نے اسی قانون کو پیش کرنے والوں کو قران و سنت کے مخالف اور آئین کے غدار قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف آرٹیکل 6 یعنی غداری کا مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔


خیبر پختونخوا جیسے قدامت پسند معاشرہ رکھنے والے  صوبے میں خواتین کے تحفظ کا یہ بل گزشتہ آٹھ سالوں سے بار بار مسترد ہوتا رہا ہے۔


وزیر  سماجی بہبود حشام انعام اللہ خان نے جمعے کو اسمبلی کے اجلاس میں بل پیش کیا جس کی اسمبلی  فلور پر موجود 44 ارکان اسمبلی نے حمایت کی۔ تاہم  مذہبی جماعتوں سے تعلق رکھنے والی دو خواتین ارکان اسمبلی  کی جانب سے اس بل کی بعض شقوں پر اس بار بھی اعتراض کیا گیا۔ یاد رہے کہ اس مسودہ قانون کے پاس ہونے کو ذرائع ابلاغ نے تاریخی قرار دیا ہے۔


  خواتین کے  تحٖفظ کے اس قانون میں ہے کیا ؟


 نئے قانون کے تحت خواتین پر تشدد کرنے والے کے خلاف پانچ سال تک قید اور جرمانے عائد کیے جائیں گے۔ اس مقصد کی خاطر ایک ہیلپ لائن بھی قائم کی جائے گی اور تشدد کی صورت میں 15 دن کے اندر عدالت میں درخواست جمع کی جائے گی۔


 اس بل کی رو سے عدالت ایسے کیسوں کا فیصلہ دو ماہ میں سنانے کی پابند ہو گی، اور عدالتی فیصلے کی خلاف ورزی پر بھی ایک سال قید اور تین لاکھ روپے تک جرمانہ ہو گا۔


 ذہنی، جسمانی اور جنسی تشدد سے بچاؤ اور حفاظت کے لیے بنائے گئے ترمیم شدہ اس قانون کے لیے ایسا طریقہ کار اپنایا گیا ہے کہ خواتین بھی تشدد سے محفوظ رہیں اور مردوں کے ساتھ بھی کسی قسم کی ناانصافی نہ ہو۔


دی انڈیپنڈینٹ اردو کے مطابق اس مقصد کی خاطر بل کی منظوری کے فوراً بعد ہر ضلعے کے لیے ایک ضلعی تحفظاتی کمیٹی بنائی جائے گی جس میں ڈپٹی کمشنر، ایگزیکیٹیو ڈسٹرکٹ آفیسر، سوشل ویلفیئرآفیسر، ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹر، پولیس کا ایک نمائندہ، ایک خطیب، گائناکالوجسٹ اور ماہر نفسیات شامل ہوں گے جو کسی قسم کی شکایت کا جائزہ باقاعدہ ثبوتوں اور حقائق کی روشنی میں لیں گے، جس کے بعد ہی یہ فیصلہ ہو گا کہ تشدد کی نوعیت کیا ہے۔


یہ کمیٹی فریقین کے درمیان مصالحت اور شکایت کنندہ کے لیے محفوظ پناہ گاہ تلاش کرنے جیسے امور بھی سنبھالے گی۔


علاوہ ازیں، ڈسٹرکٹ پروٹیکشن کمیٹی متاثرہ خاتون کو طبی اور قانونی مدد فراہم کرنے کے ساتھ اس کی رہنمائی کے فرائض بھی سرانجام دے گی۔


اس قانون پر اعتراض کرنے والوں میں بیشتر خواتین:


 اس بل م کی مخالفت کرنے والی اکثر اراکین اسمبلی کی تعداد خواتین پر مشتمل ہے۔  ان میں جمعات اسلامی، جے یو آئی، جے یو آئی ایف کی اراکین اسمبلی بھی  شامل ہیں جن کا کل اعتراض بعدا از خلع خواتین کے حقوق کی وضاحت، وراثتی حقوق کی نئے سرے سے وضاحت اور عورت کو حمل اور اسقاط حمل کا حق دینے اور شہور اور بیوی کے درمیان جنسی زیادتی پر بھی انہیں اعتراض تھا۔ جبکہ غلط طور پر شکایت درج کرانے پر جرمانے کی کم رقم پر بھی اعتراض کیا گیا تھا۔


خواتین کے حقوق کے اس قانون کو لگنے والی ٹھوکریں


خیبر پختونخوا میں گھریلو تشدد کے خاتمے کے بل کا مسودہ پہلی بار اگست 2012 میں عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی کی متحدہ حکومت میں پیش ہوا تھا، جس پر جمیعت علمائے اسلام ف کے مفتی کفایت اللہ نے اعتراضات اٹھائے تھے۔


بعد ازاں 2014 میں تحریک انصاف کے دور حکومت میں سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ نے اسے دوبارہ ڈرافٹ کیا اور جب ڈیپارٹمنٹ آف لا نے اسے اسلامی نظریاتی کونسل کو ارسال کیا تو انہوں نے اس بل کو اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔


اس طرح یکے بعد دیگرے یہ بل 2016، 2018 اور 2019 میں پیش ہوتا رہا اور ہر بار مذہبی جماعتوں اور اسلامی نظریاتی کونسل کی مخالفت کی وجہ سے ناکامی کا شکار ہوتا رہا۔  انڈیپنڈنٹ اردو نے لکھا کہ اس ضمن میں سول سوسائٹی کی جانب سے اس موضوع پر ہونے والے سینکڑوں سیمینارز اور ورکشاپس بھی غیرموثر رہے جبکہ بی بی سی اردو نے لکھا کہ اس حوالے سے لبرل جماعتیں کہیں نظر ہی نہیں آئیں۔