کیا پاکستان کی دوا ساز کمپنیاں افغانستان میں اپنا مقام کھو رہی ہیں؟

کیا پاکستان کی دوا ساز کمپنیاں افغانستان میں اپنا مقام کھو رہی ہیں؟

پاکستان اپنے پڑوسی ملک افغانستان کے ساتھ کچھ سال پہلے تک دوائیوں کی برآمدات میں حریف ملک ہندوستان سے آگے تھا مگر گزشتہ کچھ سالوں میں پاکستان کی دوا ساز کمپنیوں کی برآمدات میں کمی دیکھنے میں آئی. افغانستان کے مارکیٹس میں کچھ سال پہلے تک پاکستان کی دوا ساز کمپنیوں کا راج تھا مگر اب ہمارا حریف ہم سے آگے نکل گیا ہے.
وزارت تجارت کے دستاویزات کے مطابق گزشتہ کچھ سالوں میں مختلف وجوہات کی بناء پر ہندوستان کی دوا ساز کمپنیوں نے افغانستان کی مارکیٹ پر گرفت مضبوط کی ہیں اور اب انڈیا کی دوا ساز کمپنیوں کے برآمدات 46 فیصد جبکہ پاکستان کی دوا ساز کمپنیوں کے برآمدات 40 فیصد تک محدود ہوگئی ہیں.
دستاویز میں لکھا گیا ہے کہ افغانستان ہندوستان سے .76.08 ملین ڈالرز کی ادویات درآمد کرتا ہے جبکہ پاکستان سے 67.11 ملین ڈالرز کی ادویات درآمد کرتا ہے.
وزارت تجارت کے دستاویزات کے مطابق افغانستان نے سال 2015 میں پاکستان سے 73.90 ملین ڈالرز کی ادویات درآمد کی، سال 2016 میں 75.42، سال 2017 میں 74.49، سال 2018 میں 65.48 جبکہ سال 2019 میں 67.11 ملین ڈالرز کی ادویات درآمد کی.
وزارت تجارت کے نمائندے نے پارلیمنٹری کمیٹی برائے پاک افغان تجارتی امور کو بتایا کہ گزشتہ کئی سال سے افغانستان کی مارکیٹ میں پاکستان کی دوا ساز کمپنیاں اپنا اثر رسوخ کھو رہی ہے اور پڑوسی ملک انڈیا کی کمپنیاں وہاں اپنا اثر رسوخ بڑھا رہی ہے. انھوں نے مزید کہا کہ گزشتہ تین سالوں میں افغانستان کو ادویات کی مد میں ہماری برآمدات میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے.
انھوں نے کمی کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ڈرگز ریگولیٹری اتھارٹی میں گزشتہ دس سالوں میں کوئی بھی مستقل سربراہ تعینات نہیں ہوسکا اور نہ اس کے لئے کوئی لائحہ عمل موجود ہے جن کی وجہ سے ادارہ آگے نہیں بڑھ رہا ہے.
وزارت تجارت کے ایک افسر نے کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان کی کوئی بھی دواساز کمپنی تاحال WHO کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں اور اس وقت تک دس دوا ساز کمپنیاں WHO کے ساتھ رجسٹرڈ ہونے کے عمل سے گزر رہی ہیں. انھوں نے مزید بتایا کہ ڈرگز ریگولیٹری اتھارٹی کی لیول تھری کی رجسٹریشن تاحال صحت کے بین الاقوامی ادارے کے ساتھ نہیں ہوسکی جن کی وجہ سے دواساز کمپنیاں بین الاقوامی مارکیٹوں خصوصاً افغانستان تک رسائی نہیں کرپارہی ہے جن کی وجہ سے ہم افغانستان کے مارکیٹ سے نکل رہے ہیں.


کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ افغانستان کے طبی ماہرین جو زیادہ تر پاکستان سے پڑھ کر گئے ہیں پاکستانی ادویات مریضوں کو استعمال کرنے کے لئے تجویز کرتے ہیں مگر ہم بین الاقوامی مارکیٹ خصوصاً افغانستان میں اپنی ادویات نہیں پہنچا رہے ہیں جن کی وجہ سے ہمارے برآمدات میں کمی دیکھنے میں آئی. کمیٹی کو مزید بتایا گیا کہ پاکستان کی نسبت انڈیا کی ادویات کی قیمتیں کم ہیں اور یہ بھی ایک وجہ ہے کہ افغانستان میں انڈیا کی ادویات زیادہ استعمال ہورہی ہیں.

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔