ڈسکہ الیکشن کالعدم قرار دینا انتظامی فیصلہ تھا، انتظامی فیصلہ تو فوری کرنا پڑتا ہے: سپریم کورٹ

ڈسکہ الیکشن کالعدم قرار دینا انتظامی فیصلہ تھا، انتظامی فیصلہ تو فوری کرنا پڑتا ہے: سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ڈسکہ الیکشن کو کالعدم کرنا انتظامی فیصلہ تھا اور انتظامی فیصلہ تو فوری کرنا پڑتا ہے۔

ڈسکہ انتخبات میں دوبارہ انتخابات کے حوالے سے جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ تحریک انصاف اورمسلم لیگ ن کے امیدوار پیش ہوئے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا الیکشن کمیشن کے مطابق قانون کی خلاف ورزی پر دوبارہ پولنگ کا حکم دیا۔

انہوں نے کہا پیش کردہ نقشے کے مطابق 20 پریذائڈنگ افسران صبح تک غائب تھے، تمام کشیدگی ڈسکہ کے شہری علاقہ میں ہوئی، الیکشن کمیشن کا تفصیلی فیصلہ اور جواب اہمیت کے حامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا 20 پریذائیڈنگ افسران جہاں سے لاپتہ ہوئے وہاں فائرنگ کا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ حلقہ میں تصادم ہوئے اور پولیس دیکھتی رہی۔ شائد پولیس کی انتخابات کے حوالے سے ٹریننگ نہیں تھی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کچھ پریزائڈنگ افسران نے اپنے فون بند کر دیے اور اکھٹے غائب ہوگئے۔ تمام غائب ہونے والے پریزائڈنگ افسران صبح یکایک ایک ساتھ نمودار ہوئے۔ کیا تمام پریذائڈنگ افسران غائب ہو کر ناشتہ کرنے گئے تھے؟

عدالت کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے مطابق قانون کی خلاف ورزی پر دوبارہ پولنگ کا حکم دیا۔ الیکشن کمیشن کا تفصیلی فیصلہ اور جواب اہمیت کے حامل ہیں۔

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ این اے 75 ڈسکہ میں دوبارہ انتخابات کا حکم معطل بھی کردیں تو کچھ نہیں ہوگا۔بہترہےابھی ایسے ہی چلنے دیں۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ڈسکہ انتخابات میں قانون پرعمل نہیں ہوا۔ الیکشن کمیشن نے پولیس کے عدم تعاون کا غصہ نکالا۔

عدم تعاون دوبارہ پولنگ کا جواز نہیں ہوسکتا۔ پولیس کیخلاف تو کارروائی بھی ہوسکتی ہے۔ آئینی اداروں کا احترام کرتے ہیں۔ کمیشن کا تفصیلی فیصلہ اورجواب اہمیت کے حامل ہیں۔ جائزہ لے رہے ہیں انتخابات شفاف ہوئے یا نہیں۔

سپریم کورٹ نے ن لیگی امیدوار نوشین افتخار کے وکیل سلمان اکرم راجا کو ویڈیو لنک میں دلائل کی اجازت دیتے ہوئے سماعت ایک ہفتے کیلئے ملتوی کردی۔