9 دنوں سے دھرنے پر بیٹھے گرینڈ الائنس کی کال پر ملازمین نے بلوچستان بھر کی سڑکیں بند کر دیں

9 دنوں سے دھرنے پر بیٹھے گرینڈ الائنس کی کال پر ملازمین نے بلوچستان بھر کی سڑکیں بند کر دیں

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے سرکاری ملازمین نے بلوچستان بھر کی سڑکیں بند کر کے ٹریفک کا سلسلہ معطل کر دیا ہے۔ بلوچستان بھر کی 35 سرکاری ملازمین کے تنظیموں پر مشتمل اتحاد ’ گرینڈ الائنس‘کی کال پر بلوچستان بھر کے سرکاری ملازمین گزشتہ 9 روز سے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سمیت دیگر شہروں میں احتجاج اور دھرنے دیئے ہوئے تھے۔


پیر کے روز ملازمین نے مطالبات منظور نہ ہونے کی صورت بلوچستان بھر کی شاہراہوں پر رکاوٹیں کھڑی کر کے ہر طرح کی ٹریفک معطل کر دی۔ ملازمین نے حب، لسبیلہ، سونمیانی، قلات، ڈیرہ مراد جمالی، خضدار زیرو پوائنٹ، سبی، مستونگ، نوشکی، کوہلو، قلعہ سیف اللہ، نصیرآباد، خاران، واشک اور چاغی سمیت دیگر مقامات سے شاہراہیں بند کر رکھی ہیں۔


بلوچستان ایمپلائز اینڈ ورکرز گرینڈ الائنس کے پلیٹ فارم سے مختلف سرکاری اداروں کے ملازمین پچھلے سات روز سے اپنے 19 نکاتی مطالبات کو منوانے کے لئے سراپا احتجاج ہیں جن میں تنخواہوں میں 25 فیصد اضافے کا مطالبہ بھی شامل ہے۔ احتجاج میں شامل بلوچستان کے تمام محنت کش بلا تفریق رنگ، نسل، مذہب اور قوم طبقاتی بنیادوں پر متحد ہو کر اپنے حقوق کے لئے فیصلہ کن جنگ لڑ رہے ہیں۔ اس ضمن میں رکشہ اور ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن نے بھی ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا اور اتوار کے روز ایک بہت بڑی ریلی نکالی گئی۔


گرینڈ الائنس کے رہنما اور پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن بلوچستان کے صدر حمید خان کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی سامراجی پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں مہنگائی اور بیروزگاری میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس صورتحال میں ملازمین اور محنت کشوں کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا گیا تاہم محنت کشوں کی جانب سے بھی مزاحمت کی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں 10 فروری کو اسلام آباد میں ملازمین کی جانب سے دھرنادیا گیا، جس بعد حکومت نے ملازمین کے مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے اگلے وفاقی بجٹ تک ان کی تنخواہوں میں عبوری طور پر ’ڈسپیریٹی ریڈکشن الاؤنس‘ کے تحت 25 فیصد اضافے کی منظوری دی۔


مارچ سے یہ الاؤنس وفاقی ملازمین کو ملنا شروع ہو چکا ہے تاہم صوبائی ملازمین ابھی تک اس سے محروم ہیں۔ 10 فروری دھرنے کے تسلسل میں ہی اب بلوچستان کے سرکاری ملازمین کوئٹہ میں دوبارہ احتجاج کر رہے ہیں۔ 9 دنوں سے جاری احتجاج کے نتیجے میں سرکاری دفاتر کا نظام بری طرح متاثر ہو ا ہے۔ تمام مشکلات کے باوجود ملازمین اپنا حق لینے کے لئے پرعزم ہیں۔“


اس دھرنے میں اپوزیشن رہنماؤں نے بھی بھرپور شرکت کی ہے اور دھرنے کے شرکاء کے ساتھ اپنی مکمل سپورٹ کا اظہار بھی کیا ہے ۔


دوسری جانب وزیر اعلیٰ بلوچستان نے مظاہرین کے اس دھرنے کو سیاسی سازش قرار دے دیا ہےاور کہا ہے کہ یہ دھرنا پی ڈی ایم کی طرز کا ایک حربہ ہے۔ ایک ٹویٹ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم 6 ماہ تک سیاسی حربوں کے علاوہ کچھ نہ کر سکی، اور اب انہوں نے اپنے مفادات کے لئے یونینز اور ایسوسی ایشنز کواستعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔


وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے ملازمین کے جائزاور تسلیم شدہ حق کو بجٹ پر بوجھ قرار دیا ہے اور مختلف مواقعوں پر جاری بیانات میں ملازمین کی کردار کشی بھی کی جا رہی ہے۔


بلوچستان سول سیکریٹریٹ ویلفئیر ایسوسی ایشن کے صدر اور بلوچستان ملازمین گرینڈ ایلائنس کے کنوئنیر عبدالمالک کاکڑ کا کہنا ہے کہ تحریکین ہر دور میں رونما ہوئیں لیکن موجودہ حکومت کی تحت جو ذلت اور رسوائی کی گئی اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ بلوچستان قدرتی وسائل سے مالا مال ایک صوبہ ہے لیکن اس کے باوجود بلوچستان کے لوگوں کو روزگار دینے کے لئے ایک فیکٹری تک نہیں بنائی گئی۔


انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان کے لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت، بارڈر اور سرکاری ملازمتیں ہیں لیکن جام کمال کی حکومت میں تینوں شعبوں کو جان بوجھ کر اور منظم طریقے سے جام کیا جارہا ہے۔


عبدالمالک کاکڑ نے مزید کہا کہ گزشتہ تین سالوں میں ضرورت زندگی کی اشیاء اور مہنگائی جس قدر بڑھی ہیں تنخواہیں میں اضافہ نہیں ہوا۔ ہم تب تک نہیں اٹھیں گے جب تک ہمارے تمام مطالبات تسلیم نہ کر لئے جائیں۔


حکومت کی جانب سے شہر میں دفعہ 144 کا نفاذ کیا جا چکا ہے اور کورونا وبا کے نام پر ان کے احتجاج کو ختم کروانے کے لئے انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جا رہی ہے۔ تاہم وزیر اعلی جام کمال اور ان کی کابینہ کے وزراء نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہاکی کے فائنل میں شرکت کی اور کرونا ایس او پیز کی خلاف ورزی کی ان کی تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں جنہیں تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔


دوسری جانب بلوچستان کے کسانوں نے بھی واپڈا کی جانب سے 24 میں سے صرف 2 گھنٹے بجلی کی فراہمی کے خلاف پہییہ جام ہڑتال کی۔


اب تمام یونینز نے مل کر بلوچستان کے علاقوں حب، لسبیلہ، سونمیانی، قلات، ڈیرہ مراد جمالی، خضدار زیرو پوائنٹ، سبی، مستونگ، نوشکی، کوہلو، قلعہ سیف اللہ، نصیرآباد، خاران، واشک اور چاغی سمیت دیگر مقامات سے شاہراہیں بند کر رکھی ہیں۔


حکومت نے ملازمین سے بات کرنے کے لئے اعلیٰ سطع کی کمیٹی بنائی تاہم ابھی تک تمام مذاکرات ناکام ہوئے اور حکومت اور گرینڈ الائنس میں معاملات کی سنجیدگی مزید بڑھتی جارہی ہے۔