اڈیالہ جیل راولپنڈی کے اندر منشیات اور جوئے کا کاروبار، ڈپٹی سپرٹینڈنٹ جیل سمیت جیل عملے کے چھ افراد کے ملوث ہونے کا انکشاف

اڈیالہ جیل راولپنڈی کے اندر منشیات اور جوئے کا کاروبار، ڈپٹی سپرٹینڈنٹ جیل سمیت جیل عملے کے چھ افراد کے ملوث ہونے کا انکشاف
اڈیالہ جیل راولپنڈی میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل سمیت چھ افراد کا عملہ منشیات فروشی کے کاروبار میں ملوث ہونے کا انکشاف انکوائری رپورٹ میں کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق بین القوامی گینگ سے وابستہ تین قیدی اڈیالہ جیل میں یومیہ پچاس ہزار روپے کی منشیات فروخت کرتے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب کے حکم پر انسپکٹر جنرل آف جیل خانہ جات پنجاب کو بھجوائی گئی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ راولپنڈی کے سب سے بڑی جیل اڈیالہ جیل میں منشیا ت اور جوئے کا کاروبار عروج پر ہے اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ سمیت جیل کا چھ رکنی عملا منشیات فروشی میں ملوث ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس وقت راولپنڈی کے آڈیالہ جیل میں منشیات کے کاروبار میں کئی گینگ ملوث ہے جبکہ جوئے کا کاروبار بھی جیل کے اندر عروج پر ہے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے دفتر سے ایڈیشنل چیف سیکریٹری پنجاب اور انسپکٹر جنرل آف جیل خانہ جات پنجاب کو ایک مراسلہ جاری کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ ایک خفیہ ایجنسی کی جانب سے صوبائی حکومت کو اڈیالہ جیل راولپنڈی میں جوئےکے کاروبارکے حوالے سے رپورٹ ملی ہے اس رپورٹ پر کاروائی کرتے ہوئے پانچ دن کے اندر اندر رپورٹ وزیر اعلیٰ پنجاب کے دفتر میں جمع کی جائے۔

نیا دور میڈیا کے پاس موجود خفیہ ایجنسی کے دستاویزات میں پنجاب حکومت کو جمع کی گئی رپورٹ میں انکشا ف ہوا ہے کہ 13 فروری 2021 کو اڈیالہ جیل راولپنڈی کے بارک نمبر 1 میں دو قیدی گروپس گجر گروپ اور عمران گروپ کے درمیان جوا کھیلنے پر جھگڑا ہوا جس سے ایک قیدی شدید زخمی ہوا۔ رپورٹ میں لکھا گیا ہے اڈیالہ جیل راولپنڈی میں قید 302 کے مجرم عمران بارک نمبر چار سے بارک نمبر ایک میں جوا کھیلنے آتا ہے اور اس کے ساتھ بارک نمبر سات میں بھی جوا کھیلا جاتا ہے۔ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ بارک سرکاری انچارج ایک بارک سے دوسرے بارک جوا کھیلنے کے لئے قیدی سے 200 سے 300 روپے وصول کرتا ہے۔

رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ ڈی آئی جی جیل خانہ جات کی جانب سے جیل حکام کو ایک مراسلہ جاری کیا گیا تھا جس میں جیل حکام کو احکامات دئیے گئے تھے کہ کرپشن میں ملوث وارڈ کے انچارجز کا تبادلہ جیل سے باہر کیا جائے لیکن ایسا ممکن نہیں ہوا اور دونوں تاحال جوئے کے کاروبار میں معاونت فراہم کررہے ہیں اور دونوں کرپشن میں ملوث ہے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب کے دفتر سے جاری مراسلے کے بعد انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات پنجاب کی جانب سے ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف جیل خانہ جات راولپنڈی کو ایک مراسلہ مارچ میں جاری کیا گیا تھا جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ وزیر اعلی پنجاب کے دفتر سے ایک مراسلہ لکھا گیا ہے جن میں ایک خفیہ ایجنسی کی جانب سے ٹھوس ثبوت فراہم کئے گئے کہ اس وقت جیل کے اندر منشیات کے کئی گینگ منشیات فروشی کے کاروبار میں ملوث ہے۔

انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات کی جانب سے ڈی آئی جی جیل خانہ جات کوبھیجی گئی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ طوری نامی منشیات فروشوں کا گینگ جو پانچ قیدیوں پر مشتمل ہے جیل حکام کی معاونت سے منشیات فروشی کا اعلیٰ سطح کا کاروبار جیل کے اندر کررہے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پانچ مجرمان پر مشتمل اس گینگ میں منشیات فروشی کے مجرمان سمیت 302 کے دو مجرمان بھی شامل ہے جن میں مظہر گوندل، ولید خان، حمید شاہ، راجہ فاخر اور راجہ وقاص شامل ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اڈیالہ جیل میں منشیات فروشی کے اس گینگ کی سربراہی مظہر گوندل کررہے ہیں جو بین القوامی لیول پر کوکین اور کرسٹل نشے کے منشیات فروشی سے وابستہ ہے اور یہ قیدی جیل کے اندر کوکین، ہیروئین اور ویڈ نامی نشے کی سپلائی کرتے ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ حامد شاہ، راجہ فاخر اور راجہ وقاص مظہر گوندل کی نیچے کام کررہے ہیں اور تینوں مجرمان منشیات فروشی سے یومیہ پچاس پچاس ہزار روپے کی سپلائی کررہے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ولید نامی ایک اور قیدی ڈیمانڈ کی بنیادپر جیل کے اندر کرسٹل آئس اور کوکین سپلائی کرتا ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ منشیات فروشوں کا ایک گینگ اور دیگر منشیات فروش ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آڈیالہ جیل کو منشیات فروشی کے کاروبار میں باقاعدہ حصہ فراہم کررہے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آڈیالہ جیل مظہر نے بطور اسسٹنٹ سپرنٹنڈ جیل دس سال کام کیا ہے اور منشیات فروشی میں معاونت فراہم کرنے میں ملوث ہے۔

رپورٹ کے مطابق گلاب خان نامی ایک منشیات فروش جو فوجی کالونی راولپنڈی کا رہائشی ہے ،اعجاز بھولا نامی منشیات فروش کے ہاتھوں منشیات جیل پہنچاتا ہے اور اس میں جیل حکام معاونت فراہم کرتے ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ منشیات کے اس کاروبار میں جیل کے چھ حکام مبینہ طور پر ملوث ہے جن میں جیل وارڈ رحنیف حیدری، وارڈر حسنات، وارڈر ریاض اقبال، سی جی وارڈر عابد کہوٹ،ہیڈ وارڈر مولا بخش اور ہیڈوارڈر فلک شیر شامل ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جیل میں تعینات یہ سرکاری اہلکار جیل کے اندر منشیات لاتے ہیں اور پھر اگے گاہکوں تک پہنچاتے ہیں ۔ ان حکام کی جامع تلاشی اثر رسوخ کی وجہ سے نہیں ہوتی جن کی وجہ سے یہ آسانی سے منشیات سپلائی کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ سرکاری حکام جیل میں قید مجرموں کو مختلف جگہوں تک رسائی کے لئے بھاری معاوضہ رشوت کی مد میں وصول کرتے ہیں۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔