اسلامی برانڈز: عمران خان سے لے کر مولانا طارق جمیل اور رابی پیر زادہ تک

اسلامی برانڈز: عمران خان سے لے کر مولانا طارق جمیل اور رابی پیر زادہ تک
ماضی فراموش کرکے عمران خان وزراعظم بننے سے پہلے ہی اسلام کی طرف مائل ہوگے تھے۔2013 کے بعد جذبہ ایمانی مزید بڑھ گیا اور سیاست پر اسلامی رنگ خوب چڑھایا گیا۔اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ ۔سیاسی انتخابی جلسوں میں نعرے کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ مدینہ کی ریاست کا تصور دیا گیا ہے۔ احادیث اور قرآنی آیات سمیت سیرت رسول پاک ﷺ موضوع بنایا جاتا ہے۔سعودی عرب کی سرزمین پر ننگے پیر اترتے ہیں۔موجودہ اہلیہ اورخاتون اول باپردہ اورخالص مذہبی اور روحانی شخصیت ہے۔ عمران خان پر تو کئی تجربات کے بعد اسلامی طرز زندگی کی حقیقت کھلی اور عمران خان اس نتیجے پر پہنچے کہ وزیراعظم کے لئے ماضی کے برعکس زندگی کو ترجیح دینی پڑے گی۔ مگر رابی پیرزادہ ایک نجی حادثے کی بدولت مشرف بہ اسلام ہوئی ہے۔حادثہ بھی خود سے ہی سرزد ہوا تھا۔انسان سے غلطی تو ہوہی جاتی ہے۔ایسی غلطیاں وینا ملک اور خوبرو اداکارہ میرا سے بھی سرزد ہوئی ہیں۔مگر وہ ثابت قدم رہی ہیں ۔بس تھوڑا بہت لڑکھڑائی لیکن پھر سنبھل گئی مگر رابی نے غلطی کو کچھ زیادہ محسوس کرلیا اور زندگی کا طریق ہی بدل لیا ہے۔

رابی نے عبایا زیب تن کرلیا ہے۔اسلامی مصوری اور پنٹنگ کرتے سوشل میڈیا پر جلوہ گر ہوتی ہے۔جائے نماز اور عبایا دنیا بھر کے اسلامی بہن بھائیوں کو فروخت کیا جاتا ہے۔سوشل میڈیا لاکھوں فالورز ہیں جو پیلے لیک ہونے والی پرئیویٹ تصاویر شیئر کرتے تھے ۔آجکل اسلامی حلیہ والی تصاویر شیئر اور لائک کرتے ہیں۔اگر کوئی سوشل میڈیا صارف کسی تصویر پرہلکا پھلکا طنزیہ کمنٹس کردے تو فوری رابی پیرزادہ اپنے فالورز کو حکم دیتی ہےکہ کمنٹس کرنے والے کی طبیعت صاف کی جائے تو پھر اسلامی بہن بھائی زیادہ تر بھائی لوگ وہ لغویات کی بھر مار کرتے ہیں کہ سارا اسلام ابل پر سوشل میڈیا پر آجاتا ہے۔جس پر شاباش دی جاتی ہےاور اول پرفون پر بات کرنے کی سہولت بھی دی جاتی ہے۔دیگر پیکجزکے مینوکا علم نہیں ہے۔اللہ جانتا ہے یاپھر رابی اور فالورز کو معلوم ہو سکتا ہے۔
پنٹنگ ،عبایا اور جائے نماز اعلیٰ سوسائٹی کےلئے بنائے جاتے ہیں کیوں کہ عام اور غریب خواتین وحضرات برانڈ کے بغیر ہی گزارا کرلیتے ہیں۔مسجد کی بیرونی دیوار کے لگے سٹال یا عام بازاروں میں لگی ریڑیوں پر سے اسلامی ٹوپی،تسبیح ،مسواک اور جائے نماز مل جاتے ہیں۔کسٹمرز سے پہلے بجٹ کی انکوائری کی جاتی ہے اور پھر برانڈبتایا جاتا ہے۔برانڈخریدنے والے عقیدت کے طورپر لے لیتے ہیں۔اور گھر میں نمایاں جگہ پر رکھا جاتا ہے کہ رابی پیرزادہ سے لیا گیا ہے۔مرحوم جنیدجمشید جے جے کا کرتا اور ایم ٹی جے کی ٹوپیاں اور دیگر مصنوعات بھی بجٹ کے مطابق ہی خرید کی جاتی ہیں ورنہ 20 روپے کی بڑی خوبصورت ٹوپی عام مل جاتی ہےفرق صرف یہ ہے کہ اس پر جے جے اور ایم ٹی جے کاٹیگ نہیں ہوتا ہے۔ٹیگ ہی کی تو قیمت وصول جاتی ہے۔
اعلیٰ سوسائٹی یا طبقہ اشرافیہ میں اسلام کامذکورہ بالا فارمیٹ زیادہ قابل قبول ہے مگر نچلی سطح پر محض تقلید سے کام چلتا ہےاور فیشن کی بجائے مذہب کے نام پر مرنے مارنے پر آسانی سے اتر آتے ہیں۔کاروبار نہیں کرتے اور نہ اسلام کو برانڈ بناکر یا ہتھیار کے طور استعمال کرتے ہیںبلکہ اسلام کے نام پراستعمال ہوتے ہیں۔اس بات سے سب کو اتفاق کرنا پڑے گا کہ عمران خان اور رابی پیرزادہ کے اسلام میں نفع ہی نفع ہے۔عیب چھپ جاتے ہیں اور ترقی بھی نصیب ہوتی ہے۔ایم ٹی جے نے بھی آخر کاریہی راستہ اپناتے ہوئے دکان کھول لی ہے۔اللہ غفور ورحم برکت پائے گا اور ایم ٹی جے کا مال سب سے زیادہ بکے گا

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔