وزیراعظم کے سفرا سے متعلق بیان پر فارن سروس کے افسران میں غصے اور حوصلہ شکنی کی لہر دوڑ گئی

وزیراعظم کے سفرا سے متعلق بیان پر فارن سروس کے افسران میں غصے اور حوصلہ شکنی کی لہر دوڑ گئی
وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے فارن سروس کے افسران پر 'نوآبادیاتی ذہنیت' اور تارکین وطن کے ساتھ معاملات میں سنگدلی کا الزام عائد کیے جانے کے بعد افسران میں غصہ پایا جاتا ہے۔

تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم نے 19 ممالک میں تعینات افسران سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے سمندرپار تعینات پاکستانی سفارتکاروں کی 'چونکا دینے والی بے حسی' دیکھی ہے۔ وزیراعظم بالخصوص سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں موجود سفارتی مشنز پر تنقید کر رہے تھے جہاں بڑی تعداد میں سمندر پار پاکستانی کمیونٹی رہتی ہے، لیکن جس طرح بیان دیا گیا وہ پوری فارن سروس کی مذمت کرتا نظر آیا۔

وزیراعظم نے افسران کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'لاتعلق رویہ ناقابلِ معافی اور ناقابل قبول ہے، اپنی نوآبادیاتی دور کی ذہنیت چھوڑیں اور تارکین وطن کے ساتھ اچھا سلوک کریں'۔ وزیر اعظم کا یہ بیان حکومت کی جانب سے سعودی عرب میں تعینات سفیر راجا اعجاز کو پاکستانی کمیونٹی کی مناسب طرح خدمت نہ کرنے اور نااہلیت پر معطل کرنے اور ان سمیت 6 سفارتی اہلکاروں کو وطن واپس بلانے کے بعد سامنے آیا۔

تاہم وزیراعظم کے اس کے بیان سے فارن سروس کے افسران میں غصے اور حوصلہ شکنی کی لہر دوڑ گئی، ایک افسر کا کہنا تھا کہ 'تذلیل کرنے والے بیان' پر غصہ انتہائی شدید ہے جس نے خاموش رہنے والوں کو بھی بات کرنے پر مجبور کردیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس بات سے انکار نہیں ہے سمندر پار رہنے والے افراد کو سفارتخانوں میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن ان مسائل پر وزیر اعظم کی اپنی پریزینٹیشن معاملات کی سمجھ کے فقدان کو ظاہر کرتی ہے اور انہوں نے پہلے مسائل کا جائزہ لینے کے بجائے صرف شکایتوں پر انحصار کیا۔ چونکہ حاضر سروس افسران پیشہ ورانہ نظم و ضبط کی وجہ سے کھلے عام ردِعمل نہیں دے سکے لیکن سابق فارن سیکریٹریز نے سوشل میڈیا پر وزیر اعظم کے تبصرے کی مذمت کرنے میں پیش قدمی کی۔

سابق سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ 'وزارت خارجہ پر غیر ذمہ دارانہ تنقید سے سخت مایوسی ہوئی، لگتا ہے کہ سفارت خانوں کے قونصلر کے کام، وسائل کی شدید رکاوٹوں اور متعدد محکموں کا کردار جو [سفیروں] کے ماتحت نہیں ہیں، ان کے بارے میں انتہائی ناکافی سمجھ ہے'۔

https://twitter.com/TehminaJanjua/status/1390052271891828744

ایک اور سابق سیکریٹری خارجہ سلمان بشیر نے ٹوئٹر بیان میں وضاحت کی کہ 'کمیونٹی کو فراہم کی جانے والی عمومی خدمات دیگر محکموں کے دائرہ کار میں آتی ہیں جو پاسپورٹ، نائیکوپ (نیشنل آئڈینٹیٹی کارڈ فار اووسیز) اور قونصلر تصدیق کے معاملات دیکھتے ہیں'۔

https://twitter.com/Salman_B_PK/status/1390029367238029312

دفتر خارجہ میں تعینات افسران کا کہنا ہے کہ ان مسائل کی پسِ پردہ ساختی وجوہات ہیں، اگر غیر جانبدرانہ تحقیقات کی جائیں تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اس کی وجہ صرف دفتر خارجہ نہیں بلکہ متعدد حکومتی اداروں کی غیر فعالیت ہے، دفتر خارجہ کو مورد الزام ٹھہرانا حقیقی ساختی مسائل کو چھپانے کے مترادف ہے۔ وزیراعظم نے بذات خود بھی یہ بات کی کہ زیادہ تر شکایات پاسپورٹ اور شناختی کارڈ سے متعلق ہیں جو وزارت داخلہ اور نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔

بیرونِ ملک تعینات ایک پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ 'مشین ریڈ ایبل پاسپورٹ اور آئی ڈی کارڈ کے افسران کے اپنے مسائل ہیں ان کے تقرر میں مسائل ہیں جو زیادہ تر میرٹ پر نہیں کیے گئے جبکہ تنقید فارن سروس کے افسران پر کی جاتی ہے جو نہ انہیں تعینات کرتے ہیں نہ ان کا احتساب کرسکتے ہیں اور نہ ہی ان کی کارکردگی رپورٹ پر دستخط کرتے ہیں۔

اہم بات یہ ہے کہ ڈائریکٹوریٹ جنرل آف پاسپورٹ اور نادرا کے افسران کو غیر ملکی ماحول میں کام کرنے کی تربیت نہیں دی جاتی، جن کی اکثریت بدمزاج اور شکایت گزاروں کو بار بار آنے پر مجبور کرنے اور کوتاہیوں کے زیادہ تر معاملات میں یہ عہدیدار 'زیادہ حکمرانی' بٹن کا استعمال کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ درخواست دہندہ پاکستان کا شہری 'نہیں' ہے جس سے ہزاروں پاکستانی بے وطن ہوجاتے ہیں اور انہیں اپنے نام کلیئر کرانے کے لیے بھاری رقم خرچ کرنی پڑتی ہے۔

اسی طرح ویزا، شناختی کارڈز اور پاسپورٹ کو آن لائن کرنے نے بھی کئی مسائل کو جنم دیا، ' آن لائن' ویگن پر اندھی چھلانگ بھی مناسب تحقیق کے بغیر لگائی گئی۔

افسران کا کہنا تھا کہ مشرق وسطیٰ، یورپ حتیٰ کے شمالی امریکا میں موجود عام پاکستانی انگریزی تو دور کی بات اردو بھی نہیں لکھ سکتے، آپ نے پاکستانیوں کو ایجنٹ مافیا کے ہاتھوں میں دھکیل دیا ہے جس میں اکثریت بھارتی، بنگالی، افغانوں اور پاکستانیوں کی ہے، بیرون ملک موجود پاکستانی انہیں بھاری رقوم دیتے ہیں اور ان کی معلومات دشمن ملکوں تک بھی پہنچ جاتی ہے۔